ہفتہ، 13 جنوری، 2007

شراب چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے

خبر ہے کہ اپنے پیارے پاکستان کے کپتانوں نے انگور کے پانی سے غسل فرما کر آسمان کی سیر کرنے کی ٹھانی تھی مگر بدقسمتی سے جہاز کے مسافروں نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔اور اب ان کپتانوں کو پی آئی اے حکام نے عام پانی سے غسل کرنے کے لئے گھر بھیج دیا ہے۔

ہمارے پاکستان میں پہلے کبھی پرانے دور میں ایسا ہوتا تھا کہ اگر کوئی غلطی سے شراب پی بیٹھا اور پھر بدقسمتی کے ہاتھوں ہماری پاکی پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تو جانو وہ تو گیا اندر دو چار سال کے لئے اور اس کے جو پیسے خرچ ہوتے تھے اس کا تو حساب ہی مت پوچھیں۔
اگر ہم اپنے پیارے پاکستان جو کہ کسی زمانے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے بھی جانا پہچانا جاتا تھا، شراب پینے کے طور پر حد لاگو ہونے کی بات کریں تو مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایسی سزا کسی دور میں بھی کسی کو ہوئی ہو۔
اب جبکہ ہمارے ہاں روشن خیالی کا دور دورہ ہے اب تو رات کو پولیس والے بھی کسی کا منہہ نہیں سونگھ سکتے پکڑنا تو دور کی بات ٹھرتی ہے۔بس غل غپاڑہ نہ ہو ، چاہے آپ ساری بوتل ہی کیوں نہ چڑھا آئیں۔اپنے کپتان لوگوں سے بھی بس یہ ہی غلطی ہوئی ہوگی کہ انہوں نے اپنی پاک زبان سے کچھ اول فول بک دیا ہوگا جوکہ کسی ایسے شریف آدمی کے کانوں میں پڑ گیا جو کہ آٹھ دس سال بعد اپنے پیارے وطن پاکستان آ رہا ہوگا۔اگر اس شریف آدمی کے کانوں میں بھنک نہ پڑتی تو یہ جہاز تو کیا روزانہ پتہ نہیں کتنے ہی جہاز آتے ہیں۔بس غل غپاڑہ نہیں ہوتا۔

شراب چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے
یہ میرے یار کے جیسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے

1 تبصرہ:

  1. ایک بھٹو تها تهوڑی سی منافقت نه کر سکا ـ تهوڑی سی پینے کے اعتراف په مارا گیا ـ
    اج کے روشن دان حکمران شراب میں ٹُبیاں مارتے هیں ـ زنانیوں کو جپھیاں ڈالتے هیں ـ
    حادثاَ شراب کے ڈرم میں گر پڑا چوها جب باہر نکلا تو ٹُن هو چکا تها ـ
    اکڑ کر دم په کهڑا هو گیا اور لگا للکارنے
    کتهے اوے بلّی اج میں اینہوں کچا کها جاں گا ـ
    کدهر هے بلی میں اج اس کو کچا کها جاؤں ـ
    بیچارے اندر سے ڈرے هوئے لوگ شراب پی کر خود کو حوصله دے رہے هوتے هیں ـ
    آپنے گهر میں کتا بهی شیر والا محاوره تو سنا ہوگا ناں آپ نے ؟
    آپنی آپنی سیٹ پر شیر کی ایکٹینگ کرنے والے یه لوگ آپنے افسران کے سامنے آپنی نادیده دُم ہلا رہے هوتے هیں ـ

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...