جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی
آوازیں گونجتی تھیں اور زندگی اپنے رنگ میں رواں دواں تھی، وہیں ایک تاریک سایہ
چھپا ہوا تھا۔ اس سایے کا نام تھا جاوید اقبال مغل۔ وہ ایک عام سا دکھنے والا شخص
تھا—چھوٹا قد، سادہ لباس، اور ایک ایسی مسکراہٹ جو بظاہر بے ضرر لگتی تھی۔ لیکن اس
مسکراہٹ کے پیچھے ایک ایسی وحشت چھپی تھی جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔
ابتدائی زندگی اور نفرت کا بیج
جاوید اقبال 1956ء میں لاہور میں پیدا ہوا۔ وہ ایک تاجر کے گھر
میں آٹھ بچوں میں سے چھٹا تھا۔ اس کا باپ، محمد علی مغل، ایک کامیاب کاروباری
شخصیت تھا، اور گھر میں دولت کی کمی نہ تھی۔ جاوید کی پرورش ایک متوسط طبقے کے
ماحول میں ہوئی، جہاں اسے بنیادی سہولیات میسر تھیں۔ لیکن اس کے اندر ایک بے چینی
تھی، ایک خلا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔
1978ء میں، جب وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھا، اس نے
ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا—اسٹیل کی دوبارہ پروسیسنگ کا۔ اس کے والد نے اسے
شاد باغ میں ایک ولا دیا، جہاں وہ اکیلا رہتا تھا۔ لیکن اس کے رویے میں کچھ عجیب
تھا۔ وہ اکثر تنہائی میں گھنٹوں گزارتا، اور اس کی دلچسپی ان بچوں کی طرف بڑھنے
لگی جو گلیوں میں بھٹکتے تھے—بے گھر، یتیم، یا راہ سے بھٹکے ہوئے۔
1990ء کی دہائی میں، جاوید کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں۔ اس پر کم
عمر لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کے الزامات لگے۔ ایک بار ایک لڑکے نے اسے شدید زخمی کر
دیا، جس کے بعد اس کی ماں کی صحت خراب ہو گئی اور وہ دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو
گئیں۔ جاوید نے اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس
کی ماں اسے زخمی اور بدنام دیکھ کر روتی رہی تھیں۔ اس واقعے نے اس کے دل میں ایک
گہری نفرت بھر دی—ایک نفرت جو اسے انتقام کی طرف لے گئی۔
قتل کا جنون
جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاشرے سے بدلہ لے گا جس نے اسے
ذلیل کیا۔ اس نے اپنے گھر کو ایک جال بنایا۔ وہ بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے
ویڈیو گیم پارلر کھولتا، انہیں کھانا دیتا، اور ان سے دوستی کرتا۔ زیادہ تر اس کے
شکار وہ بچے ہوتے جو گھر سے بھاگے ہوئے یا یتیم تھے—وہ جن کی کوئی تلاش نہ کرتا
تھا۔
1998ء سے 1999ء کے درمیان، جاوید نے اپنے بھیانک منصوبے کو عملی
جامہ پہنایا۔ اس نے 6 سے 16 سال کے لڑکوں کو نشانہ بنایا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے
جاتا، ان کے ساتھ زیادتی کرتا، اور پھر ان کا گلا گھونٹ دیتا۔ اس کے بعد وہ لاشوں
کو ٹکڑوں میں کاٹتا اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے ڈرموں میں ڈال دیتا تاکہ کوئی ثبوت
باقی نہ رہے۔ اس نے اپنی ڈائری میں ہر قتل کی تفصیل لکھی—نام، عمر، اور یہ کہ اس
نے انہیں کیسے مارا۔ اس نے لکھا، "میں نے سو ماؤں کو اپنے بیٹوں کے لیے رلانے
کا عہد کیا تھا، جیسے میری ماں میرے لیے روئی تھی۔"
انکشاف اور گرفتاری
دسمبر 1999ء میں، جاوید نے اپنے سوویں شکار کو قتل کیا۔ اس کے
بعد اس نے ایک خط لکھا اور اسے لاہور کے ایک اخبار "جنگ" اور پولیس کے
پاس بھیجا۔ خط میں اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس نے سو بچوں کو
قتل کیا اور ان کی لاشیں راوی دریا میں بہا دیں۔ اس نے اپنے گھر میں ثبوت بھی
چھوڑے—خون کے دھبے، بچوں کی تصاویر، اور دو ڈرم جن میں ابھی تک ہڈیاں باقی تھیں۔
پولیس نے اسے پکڑنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی تلاش شروع کی۔
جاوید نے خود کو "جنگ" کے دفتر میں پیش کر دیا اور گرفتار ہو گیا۔ اس کی
گرفتاری کے بعد اس کے گھر سے بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کے ڈھیر برآمد ہوئے۔ اس نے
عدالت میں کہا کہ وہ معاشرے کے سامنے بچوں کے استحصال کا مسئلہ اٹھانا چاہتا تھا،
لیکن اس کا دعویٰ کسی کو قائل نہ کر سکا۔
جاوید اقبال کے
کیس کے پیچھے حقائق
جاوید
اقبال مغل (پیدائش تقریباً 1956ء یا 1961ء—یقینی تاریخ معلوم نہیں، وفات 8 اکتوبر
2001ء) پاکستان کے بدنام زمانہ سیریل کلرز میں سے ایک ہے۔ 1998ء سے 1999ء کے
درمیان، اس نے لاہور میں 6 سے 16 سال کی عمر کے 100 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور
قتل کا اعتراف کیا۔ اس کا طریقہ کار انتہائی خوفناک تھا: وہ کمزور بچوں—اکثر بھاگے
ہوئے، یتیم، یا سڑکوں پر رہنے والوں—کو شاد باغ میں اپنے گھر لے جاتا، ان کے ساتھ
زیادتی کرتا، زنجیر سے گلا گھونٹتا، لاشوں کے ٹکڑے کرتا، اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے
ڈرموں میں تحلیل کر دیتا۔ باقیات کو راوی دریا یا نالوں میں پھینک دیتا، تاکہ کوئی
ثبوت نہ رہے۔
اس
کے جرائم دسمبر 1999ء میں منظر عام پر آئے جب اس نے لاہور پولیس اور اخبار جنگ کو ایک اعترافی خط
بھیجا، جس میں اس نے اپنے اعمال کی تفصیل دی اور دعویٰ کیا کہ اس نے 100 شکاروں کا
ہدف مکمل کر لیا۔ اس نے ہر قتل کو ایک ڈائری میں نوٹ کیا—نام، عمر، اور تصاویر
سمیت۔ پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں انسانی باقیات کے ساتھ ڈرم، خون کے
دھبے، اور بچوں کے کپڑے ملے۔ بڑے پیمانے پر تلاش کے بعد، جاوید نے 30 دسمبر 1999ء
کو جنگ کے
دفتر میں خود کو پیش کیا، کیونکہ اسے پولیس کے تشدد کا خوف تھا۔
اس
کا مقدمہ 2000ء میں چلا، جو بہت مشہور ہوا۔ 16 مارچ 2000ء کو جج اللہ بخش نے اسے
100 بار سزائے موت سنائی—اسے زنجیر سے گلا گھونٹنے، 100 ٹکڑوں میں کاٹنے، اور ایسڈ
میں جلانے کا حکم دیا گیا، جو اس کے جرائم کا عکاس تھا۔ لیکن یہ سزا کبھی عمل میں
نہ آئی۔ 8 اکتوبر 2001ء کو، جاوید اور اس کا ساتھی ساجد احمد کوٹ لکھپت جیل میں
مردہ پائے گئے۔ سرکاری طور پر خودکشی قرار دیا گیا، لیکن پوسٹ مارٹم میں تشدد کے
نشانات ملے، جس سے قتل کا شبہ ہوا۔
اس
کیس نے نظام کی ناکامی کو عیاں کیا: بہت سے شکاروں کی گمشدگی کی رپورٹ ہی درج نہ
ہوئی، اور جاوید کے خلاف 1985ء اور 1990ء میں بدفعلی کی شکایات پر عمل نہ ہوا، جس
سے وہ قتل تک جا پہنچا۔
اس میں ملوث افراد
1. جاوید اقبال مغل: مرکزی مجرم، ایک درمیانی عمر کا تاجر جس کی جنسی جرائم کی
تاریخ تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے قتل پولیس کے تشدد اور معاشرتی بے حسی کا
بدلہ تھے، جو اس کی ماں کی موت کے بعد شروع ہوا۔
2. متاثرین: 100 لڑکے، زیادہ
تر غریب سڑکوں پر رہنے والے، بھاگے ہوئے، یا یتیم۔ ان کی کمزوری—خاندانی تحفظ یا
معاشرتی توجہ کی کمی—نے انہیں آسان شکار بنایا۔ والدین نے بعد میں ان کے کپڑوں کی
شناخت کی، لیکن اکثر نے ابتدا میں گمشدگی کی اطلاع نہ دی۔
3. ساتھی:
o ساجد احمد: جاوید کا بنیادی
ساتھی، ایک نوعمر جو اس کے ساتھ رہتا اور شکاروں کو راغب کرنے میں مدد کرتا تھا۔
وہ جیل میں جاوید کے ساتھ مرا۔
o دیگر نوعمر لڑکے: چار ساتھیوں—عشاق، ارباب، اور دو دیگر—نے مدد کی۔ ایک کی حراست
میں موت ہوئی (سرکاری طور پر کھڑکی سے گرنے سے، لیکن پولیس تشدد کا شبہ)، باقی کو
کم عمری میں سزا دی گئی۔
4. پولیس اور حکام:
o لاہور پولیس: ابتدائی شکایات
پر عمل نہ کرنے اور اعتراف کے بعد جاوید کو کھونے پر تنقید کا نشانہ بنی۔ اس کے
خلاف پچھلا تشدد اس کے بدلے کا محرک بنا۔
o وزیر داخلہ معین الدین حیدر: سزائے موت کی وحشت کے خلاف تھے، انسانی حقوق کا حوالہ دیتے
ہوئے کہا کہ اسے چیلنج کیا جائے گا۔
5. جج اللہ بخش: مقدمے کی صدارت
کی اور عوامی غم و غصے کے تحت سخت سزا سنائی، جو شرعی اصولوں سے متاثر تھی۔
6. میڈیا:
o خوار نعیم ہاشمی: جنگ کے چیف نیوز ایڈیٹر، جنہوں نے اعترافی خط وصول کیا اور جاوید
کی گرفتاری ممکن بنائی۔
o اخبار جنگ: کہانی شائع کی،
شکاروں کے نام اور تصاویر چھاپیں، جس سے عوامی ردعمل بڑھا۔
7. متاثرین کے خاندان: 70 سے زائد والدین نے گواہی دی، اپنے بچوں کے کپڑوں کی شناخت کی۔
ان کا غم کیس کا جذباتی پہلو بنا، لیکن ان کی ابتدائی بے توجہی معاشرتی مسائل کو
نمایاں کرتی ہے۔
جاوید اقبال کی
ذہنی نفسیات کا تجزیہ
جاوید
اقبال کی نفسیات سیریل کلرز کی عام خصوصیات سے ملتی ہے، جن میں سائیکوپیتھی،
انتقام، اور کنٹرول کی خواہش شامل ہیں۔ یہاں اس کا تجزیہ پیش ہے:
1. سائیکوپیتھک خصوصیات:
o ہمدردی کی کمی: 100 بچوں کو منظم طریقے سے قتل کرنا اور ان کی تفصیلات بے رحمی سے
لکھنا ہمدردی کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
o خود پسندی: اس کا اعتراف اور
خودسپردگی شہرت کی خواہش کو دکھاتی ہے، جیسے اس نے کہا کہ وہ 500 قتل کر سکتا تھا
لیکن 100 پر رکا۔
o ہیرا پھیری: شکاروں کو راغب
کرنے کے لیے دلکشی، کاروبار (جیسے ویڈیو گیم پارلر)، اور تحائف کا استعمال اس کی
منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
2. انتقامی خیالات:
o اس نے دعویٰ کیا کہ قتل پولیس کے تشدد اور معاشرے کے
خلاف بدلہ تھے، جو اس کی ماں کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ماں سے گہری وابستگی اور اس
کی موت نے اسے “100 ماؤں کو رلانے” کے مشن پر لگا دیا۔
o نفسیاتی طور پر، یہ “موت کی جبلت” (Thanatos) کو
دکھاتا ہے، جو اس کے ضمیر پر حاوی ہو گئی۔
3. جنسی وحشت اور پیڈوفیلیا:
o قتل سے پہلے زیادتی جنسی وحشت اور تسلط کی خواہش کو
ظاہر کرتی ہے۔ کم عمر لڑکوں کو نشانہ بنانا پیڈوفیلیا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو
شاید پچھلے تجربات سے پیدا ہوا۔
4. کنٹرول اور ترتیب:
o بالکل 100 قتل، ہر ایک کی دستاویزات، اور لاشوں کو
تحلیل کرنا کنٹرول کی شدید خواہش کو دکھاتا ہے، شاید پچھلی بے بسی کا بدلہ۔
5. محرک واقعہ:
o 1998ء میں ایک مساج کرنے والے کے حملے نے اسے زخمی کیا، جس نے اس
کے انتقام اور شہرت کے جنون کو بڑھایا۔ ماں کی موت کے ساتھ یہ اس کی قاتلانہ مہم
کا آغاز بنا۔
ایسی نفسیات کو
کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟
جاوید
جیسے لوگوں کا علاج ان کی پیچیدہ ذہنی حالت کی وجہ سے مشکل ہے۔ یہاں ممکنہ طریقوں
اور ان کی حقیقت پر بحث ہے:
1. چیلنجز:
o سائیکوپیتھی: اعلیٰ
سائیکوپیتھک درجہ (جیسے Hare Psychopathy
Checklist) علاج کے کم امکانات کو دکھاتا ہے۔ ہمدردی کی
کمی اور ہیرا پھیری تھراپی کو مشکل بناتی ہے۔
o گہرے خیالات: جاوید کے انتقام
اور وحشت کے خیالات برسوں سے مضبوط تھے۔ عمل میں آنے کے بعد انہیں ختم کرنا
تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
o ابتدائی مداخلت کی کمی: 1980ء اور 1990ء کی شکایات پر عمل نہ ہوا، جو اس کے بڑھنے کو روک
سکتا تھا۔
2. ممکنہ طریقے:
o کوگنیٹو بیہیویئرل تھراپی
(CBT):
غلط عقائد (مثلاً انتقام کا جواز) اور جذباتی کنٹرول پر
کام کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے تبدیلی کی خواہش ضروری ہے، جو جاوید میں نہ تھی۔
o دوائیں: اینٹی ڈیپریسنٹس
یا اینٹی سائیکوٹکس غصہ یا جنون کو کم کر سکتے ہیں، لیکن سائیکوپیتھی یا وحشت کو
حل نہیں کرتے۔
o روک تھام: جنسی جرائم،
تنہائی، یا غصے کے ابتدائی آثار کی شناخت اور لازمی تھراپی سے بچاؤ ممکن ہے۔ جاوید
کے کیس میں یہ غائب تھا۔
o کنٹرولڈ بحالی: طویل قید کے ساتھ تھراپی خطرے کو کم کر سکتی ہے، لیکن مکمل
علاج مشکل ہے۔
3. حقیقی امکانات:
o جاوید جیسے سیریل کلرز، جو برسوں تک اپنے جنون پر عمل
کرتے ہیں، کے لیے “علاج” عملی طور پر ناممکن ہے۔ روک تھام—ابتدائی مداخلت اور
معاشرتی اصلاحات (بچوں کا تحفظ، قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری)—زیادہ اہم ہے۔
o اس کی موت—خودکشی ہو یا قتل—نے علاج یا مطالعے کا امکان
ختم کر دیا۔
4. نتیجہ:
o نفسیات ابھی تک جاوید جیسے کیسز کا مکمل علاج نہیں دے
سکتی۔ قید اور خطرے کی کمی زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کا کیس ایک سبق ہے کہ
معاشرے کو اپنے کمزور طبقات کی حفاظت پر توجہ دینی چاہیے۔
سزا اور انجام
جاوید کا مقدمہ دو ماہ تک چلا۔ 105 گواہوں نے گواہی دی، جن میں
73 والدین بھی شامل تھے جن کے بچوں کو جاوید نے مارا تھا۔ عدالت نے اسے سو بار
سزائے موت سنائی—اسے حکم دیا گیا کہ اسے اسی زنجیر سے گلا گھونٹا جائے جس سے اس نے
بچوں کو مارا، اس کے جسم کے سو ٹکڑے کیے جائیں، اور پھر انہیں ایسڈ میں جلا دیا
جائے۔
لیکن یہ سزا کبھی پوری نہ ہو سکی۔ 8 اکتوبر 2001ء کو، جاوید
اور اس کا ایک ساتھی جیل میں مردہ پائے گئے۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ انہوں نے
خودکشی کی، لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ انہیں جیل کے اندر قتل کیا گیا۔ اس
کے ساتھ ہی جاوید اقبال کی کہانی ختم ہو گئی، لیکن اس کے جرائم کا داغ پاکستانی
معاشرے پر آج تک باقی ہے۔
سبق
جاوید اقبال کی کہانی صرف ایک قاتل کی کہانی نہیں، بلکہ ایک معاشرے
کی ناکامی کی کہانی ہے۔ ان بچوں کی کوئی تلاش نہ ہوئی جنہیں وہ لے گیا۔ اس کیس نے
یہ سوال اٹھایا کہ ہم اپنے سب سے کمزور طبقے—بچوں—کی حفاظت کیوں نہ کر سکے؟ جاوید
اقبال ایک وحشی تھا، لیکن اس کی وحشت کو پنپنے کا موقع اس معاشرے نے دیا جو اپنے
بچوں کو بھول گیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں