بہن چود اور کتے کا بچہ ۔۔۔ یہ دونوں گالیاں بڑی پیار بھری ہیں ۔۔۔
کون سا ایسا گھر ہوگا جہاں یہ پیار بھری گالیاں نہ نکالی جاتی ہوں ۔کسی گھر میں
ایک خوبصورت سا بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اس کے منہہ سے ‘‘ بہن چود ‘‘ کی گالی
کتنی خوبصورت لگتی ہے ۔۔ یہ وہی لوگ زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں جو اس گالی کے مفہوم
سے آشنا ہوتے ہوئے بھی انجان بنے رہنا چاہتے ہیں ۔
کتے کا بچہ ، حرامزادہ ، خنزیر ، دلا اور سور جیسی
گالیاں ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں ۔حتٰکہ کئی گھروں میں میں نے بذات
خود ماں بہن کو گشتی یا گشتی کی بچی جیسے القاب سے بھی مستفید ہوتے سنا ہے اور کئی
معزز گھروں میں کنجر یا کنجری کی گالی اتنی کثرت سے دی جاتی ہے کہ مانو لگتا ہے
جیسے ان کا گھر ہیرا منڈی میں واقع ہو ۔
ہر زبان میں گالی کی ایک علیحدہ چبھن ہے مگر کہتے
ہیں جو چبھن گالی کی پنجابی زبان میں ہے وہ کسی میں نہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ بھی حقیقت
ہے کہ گالی دینا بھی ایک فن ہے اور اس فن کو سیکھنے کے لئے بڑے بڑے ‘‘ گلیڑ استاد
‘‘ گالی نوازوں کی شاگردی حاصل کرنا پڑتی ہے ۔کہتے ہیں مقابلے میں ایک اچھے گلیڑ
استاد کا سیکھا ہوا ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گالی نکالنے والا ) کبھی ایک نکالی گئی گالی
دوسری بار نہیں نکالتا ۔اگر غلطی سے اس کی زبان سے ایک ہی گالی دوبار ادا ہوگئی تو
اس کی دوبارہ ٹرینگ کے لئے اسے چھ ماہ ہیرا منڈی میں کسی کنجری کے کوٹھے پر گاہکوں
کی چانپی کرنے کے لئے بھیج دیا جاتا ہے ۔
شیخو بلاگ میں تازہ نیوز ، ذاتی حالات زندگی ، معاشرتی پہلو اور تازہ ٹیکنیکل نیوز کے متعلق لکھا جاتا ہے
اتوار، 15 ستمبر، 2013
بہن چود ۔۔۔۔۔ کتے کا بچہ
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Featured Post
جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...

-
اساں چولا پایا عشقے دا اساں بنھ لئے گھنگرو یار دے دس کیہ کریے ایہناں اکھیاں دا وچ سُفنے چھمکاں مار دے اساں چیتر گروی رکھیا سی اج ہاڑ ک...
-
پاکستان بھر میں بارشوں کی رومانوی چھاؤں ۔ بارش کے اس خوبصورت موسم میں بوندوں کی زبانی پینو کافی شاپ کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، جہاں ...
-
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بی بی اے کے طالب علم مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کا واقعہ پاکستان کے سب سے زیادہ زیرِ ...
جی ہاں بعض لوگ گالی دینے میں بڑے کم ظرف ہوتے ہیں جیسا کہ غالب مرحوم سے ایک قصہ منسوب ہے کہ انہیں ایک آدمی نے ماں کی گالی دی تو موصوف غصہ کرنے کی بجائے اس پر ہنسے کہ کمینہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ مجھ بڈھے پر ماں کی گالی کا کیا اثر ہو گا ۔ :mrgreen:
جواب دیںحذف کریںاصل میں مجھے اس تحریر کی تحریک آپ کی فیس بک والی تحریر سے ملی ۔اسی دن سے یہ تحریر جیسے میرے اندر کلبلا رہی تھی بس مصروفیت قلم کے آڑے تھی ۔ آج فراغت ملی تو لکھ ماری ۔۔
جواب دیںحذف کریں:twisted: :twisted: :twisted:
میں کبھی کبھی محسوس کرتا ہوں کہ میں شاید اس دنیا میں نہیں رہتا ۔ میرے گھر کی سب سے بڑی گالیاں گندا بچہ اور سُست ہیں اور وہ بھی بہت تنگ آنے پر کبھی کبھار استعمال ہوئیں ۔ میرے گھر سے مطلب میرے دادا دادی ۔ میرے والدین ۔ میں ۔ میری بیوی ۔ میری بہننیں ۔ میرے بھائی اور میرے بچے ۔ بہن بھائیوں کے بچوں کے ساتھ میں رہا نہیں البتہ بڑی بہن کی بیٹی کی سب سے بڑی گالی گدھا یا گدھی ہے ۔ ان کی دوسری بیٹی اتنا تکلف بھی نہیں کرتی
جواب دیںحذف کریںلیکن یھی جب بچہ بڑا ھو جاتا ھے۔ تو اٌس یھی گالی بہت بری لگتی ھے۔
جواب دیںحذف کریںاچھا جی تو آپ نے پسِ پردہ واپڈا کے حرامی عناصر کی روحانی تسکین کی ہے :mrgreen:
جواب دیںحذف کریںمحترم آپ خوش نصیب ہیں اور ایسے خوش نصیب ہمارے معاشرے میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔۔ہمیں اور ہمارے معاشرے کو بھی دعاؤں میں یاد رکھئے گا
جواب دیںحذف کریںجی ہاں آپ بجا فرماتے ہیں
جواب دیںحذف کریںبہت خوب۔
جواب دیںحذف کریںگالیاں لکھنے پر اخلاقیات کے ٹھیکیدار کیا کہتے ہیں اس بات سے قطع نظر
گالیاں ہمارے معاشرت کا حصہ ہیں
ان گالیوں کی نشاندہی کر کے ڈیفینیشن مقرر ہونی چاہئے
ہمارے بزرگوںکے زمانے میں جو گالی مجھے یاد ہے وہ تھی
بد دا کن
اور دھمکی ہوتی تھی
تیرا سر دو کناں وج دے دینا اے ۔
ویسے پہلے تو میں حیران ہی رہ گیا، شاید میرے لیئے یہ ایک نیا تجربہ ہے انٹر نیٹ پر ایسی سپیڈ والی گالیاں میں نے پہلی بار پڑھی ہیں، سچی بات ہے پہلے تو دنگ ہی رہ گیا۔
جواب دیںحذف کریںبس اگر دیکھا جائے تو ہم لوگوں کے وجود ہی ایک گالی بن گئے ہیں، اب تو نا ان کی ادائیگی کے لیئے ہیرا منڈی جانا پڑتا ہے اور نا ہی کسی استاد کی ضرورت ہے ، سر تا پا ہم لوگ گالیوں کا مجموعہ ہیں۔ بس کچھ بول کے گالی بن جاتے ہیں کچھ خاموشی سے گالی بنے رہتے ہیں۔
میرے خیال میں ضمیر کا مر جانا سب سے بڑی گالی ہے کیوں کہ اس کے بعد کوئی گالی ، گالی نہیں لگتی۔
بھائی جی تبصرے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںسچ کہتے ہیں بزرگوں کی کیا بات تھی ۔۔ ان میں تہذیب تھی اگر کوئی بات کرتے تھے یا کچھ برا بھلا کہتے تھے ، تہذیب یافتہ انداز میں کہتے تھے ۔۔۔ اور اب ۔۔
بارہ سال سے کم عمر کا بچہ ماں چود کی گالی سے شروعات کرتا ہے
محترم رانا صاحب اس ناچیز کے بلاگ پر خوش آمدید
جواب دیںحذف کریںآپ کے اس خوبصورت تبصرے پر ممنون ہوں
آپ کی بات بہت بڑی ہے اور یہی سچ اور حقیقت بھی ہے کہ ۔۔۔۔
'' ضمیر کا مرجانا سب سے بڑی گالی ہے ''
نجیب بھائی!!! بہت شکریہ،
جواب دیںحذف کریںآپ کے بلاگ پر آنا میرے لیئے ایک اعزاز سے کم نہیں۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کی انگلی پکڑ کر ہم نے چار لفظ سیکھے ہیں اور انہی چار الفاظ کی وجہ سے شاید کچھ لکھ پاتے ہیں۔
میں گوگل پر بہت سارے لوگوں کو اس تحریر پر غصہ کرتے اور ذاتیات پر اترتے دیکھ رہا ہوں۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ سچائی بڑی تلخ ہوتی ہے جو جلدی جلدی اچھے خاصے سمجھداروں کے حلق سے بھی مشکل سے اترتی ہے۔ آپ نے دل کھول کر لکھا اور بے باک لکھا، پورے کا پورا معاشرہ ایک گالی اور ایک ناسور بن چکا ہے، اور اگر ہم اس کا حصہ ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے۔
جس ملک کو کلمہ طبیہ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا جس کی بنیاد دین اسلام تھی، آج اسی ملک میں معصوم بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہےاس کے بعد خود اپنا وجود ایک چلتی پھرتی گالی لگتی ہے۔ پتا نہیں ہمیں تباہ ہونے میں اور کتنا وقت لگے گا، کب یہ زمین ہمیں نگلے گی یا کب یہ آسمان ہم پر آگ بن کر برسے گا۔
کیوں کہ شاید اس دنیا میں عبرت بن جانے کے بعد آخرت میں ہم دوزخ کی آگ سے بچ جائیں ، اسی دنیا میں اپنا کفارہ دے جائیں تو شاید دائمی زندگی میں بچنے کا کوئی امکان ہو۔ شاید!!!!
بس اللہ پاک حق سچ کی بات کہنے، سننے اورعمل کرنے کی توفیق دے، آمین
شکریہ
اسے کہتے ہیں کچھ ہٹ کے لکھنا اور خوب لکھنا ۔۔
جواب دیںحذف کریںنجیب بھائی نے بارش کے پہلے قطرہ کا کام کرتے ہوئے ایسی کھلی ڈلی تحریر کی شروعات کی
اشفاق احمد صاحب اپنی کتاب بابا صاحبا میں لکھتے ہیں کہ جب وہ اٹلی میں تھے تو ان کے کچھ دوستوں نے جن میں خواتین بھی شامل تھیں ان سے پوچھا کہ پاکستان میں کیسی گالیاں نکالی جاتی ہیں جس پر انہوں نے پہلے پنجابی میں گالیاں دی پھر ان کا اٹالین میں ترجمہ کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو سچائی ہے قدرتی عمل ہے جسے آپ نے گالی بنا دیا ۔۔۔ پھر ان میں ایک خاتون نے سب کے بے حد اصرار پر باہر گلی میں جھانک اور سب دروازے بند کرکے کہا کہ "تم مرجاؤ" ۔۔۔ یعنی ان کے نزدیک کسی کو مرنے کی بد دعا دینا سب سے بڑی گالی ہے ۔۔۔
بہرحال یہاں گالی اتنی محسوس اسلیئے ہوتی ہے کہ پنجابی زبان کے صوتی اثرات بہت طاقتور ہوتے ہیں اگلے کا اندر ہلا ڈالتے ہیں :smile:
کچھ لوگ گالیاں سن کر خوش ہوتے ہیں اور کچھ لوگ تعلق ہی توڑ جاتے ہیں تو کچھ اس کے ردعمل میں اپنا حصہ ڈالدیتے ہیں فراخ دلی سے ۔۔۔۔ میرا شمار بھی انہی فراخ دلوں میں ہوتا ہے
مزہ آگیا تحریر پڑھ کر بھائی
بھائی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی گالی صرف اپنی زبان میں :lol:
جواب دیںحذف کریںبحر حال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمد اللہ میرے گھر کی چار دیواری میں میرے سمیت کوئی گالی نہیں نکالتا
باہر تو لگتا ہمارے بچے منہ ضرور کرارا کرتے ہوں گے کیونکہ کبھی کبھی ہم بھی جو :lol: :lol: :lol: :lol:
بحر حال یہ بلاگز کا ہی اعجاز ہے کہ ایسی تحریر پڑھنے کو مل گئی
یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ جو محبوب اور اردو کی گالی کا برا مناتا ہے۔ وہ آدمی ٹھیک نہیں۔ اور جو پنجابی اور انگلش کی گالی کا برا نہیںمناتا۔ آدمی وہ بھی ٹھیک نہیں۔
جواب دیںحذف کریںخیر تفنن برطرف۔ گالی دینا یا گالی بکنا ہمارے معاشرے کی ایک ایسی شناخت بن گئی ہے کہ بعض لوگ محض بات میںاثر پیدا کرنے کو گالی دے دیتے ہیں۔ اور یہ بات ایک حقیقت بھی ہے کہ اس سے بہرحال جملے کی تاثیر میںخاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے۔
بہت ہٹ کر تحریر پڑھنے کو ملی۔ ایک تلخ پہلو کو اجاگر کرتی ہوئی۔