تقریباً ایک ہفتہ قبل فیس بک پر انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) نے میرا دروازہ کھٹکایا اور کہا کہ بھائی آپ ابھی تک سوئے پڑے ہیں کیا کوئی لاہور میں ہلاگلا کرنے کا ارادہ بھی ہے یا کہ نہیں ۔۔۔ ہم نے بھی ایک آنکھ کھول کر پہلے انکل ٹام کو دیکھا پھر سوچا کہ کہیں یہ ٹام اینڈ جیری والے ٹام نہ ہوں اس لئے دوسری آنکھ کھول کر ہم نے فوراً کہا کہ کیوں نہیں جب کہیں بنا لیتے ہیں پروگرام ۔۔۔۔۔۔ ہم نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کو اگلے ہی ہفتہ میں یعنی گذشتہ روز چھبیس مئی دوہزار تیرہ بروز اتوار شام چھ بجے کا کہہ دیا ۔
گذشتہ روز سخت گرمی میں ایک خوبصورت شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ ہم پونے چھ بجے ہی پاک ٹی باؤس جاکر بیٹھ گئے اور لگے بھائی لوگوں کا انتظار کرنے ۔سب سے پہلے محفل کے ہمارے خوبصورت اور دبنگ دوست بابا جی سرکار تشریف لائے ۔پھر اپنے ساجد بھائی اپنے دو عدد مہمانوں کے ساتھ تشریف لائے ۔جن میں سے ایک گلگت کے معروف صحافی تھے اور ایک لاہور کے معروف لکھاری ۔۔۔ بعد ازاں انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) محمد عبداللہ اپنے ایک کزن کے ساتھ تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حجاب شب ، عاطف بٹ صاحب ، سبہانی صاحب اور دیگر دوست بھی تشریف لے آئے ۔
چائے کا دور شروع ہوا ۔۔سب کو پوچھنے کے بعد میں نے خصوصی طور پر ارسلان شکیل سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے ۔۔ارسلان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کھانا بلکہ وہ ہمارے سب کے لئے ٹورنٹو ( کینڈا) سے پیزا بنوا کر لائے ہیں۔میرے سمیت سب بڑے حیران ہوئے ۔۔ کیونکہ ہمیں بلکل بھی نہیں پتہ تھا کہ انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔ارسلان شکیل کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے بالکل بھی نہیں سویا ہوں اور اس وقت مجھے کولڈ کافی کی طلب ہو رہی ہے ۔۔۔ اب ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں کولڈ کافی تو ملنی مشکل تھی اس لئے انہیں معذرت کے ساتھ جوس پیش کیا گیا ۔اور ہم سب نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کے والد صاحب کا خصوصی طور پر بنایا گیا ایک انتہائی لذیز پیزا چائے کے ساتھ نوش کیا۔ اور ساتھ اللہ کی قدرت کی تعریف کی کہ کس پانی ، اجزا اور کہاں اور کس کے ہاتھ کا بنا ہوا پیزا کس جگہ اور کون لوگ کھا رہے ہیں ۔۔۔ یعنی دانے دانے پر مہر ہوتی ہے ۔۔۔کوئی کسی کا لقمہ نہ تو چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا لقمہ کھا سکتا ہے ۔۔جب تک پروردگار نہ چاہے ۔
چائے کے دوران اور چائے کے بعد معلوماتی باتیں اور گپ شپ ہوتی رہی ۔ محمد عبداللہ ذرا تھوڑے کم گو تھے اس لئے انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں مگر سب کی باتوں میں سے تجربے کی باتیں اپنی پٹاری میں جمع کرتے رہے ۔عاطف بٹ ، ساجد ، بابا جی اور ہمارے درمیان حسب معمول جگت بازی ، چٹکلے اور شرارتیں چلتی رہیں ۔ آخر کار نو بجے کے قریب یہ خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔
[gallery ids="994,995,996,997,998,999,1000,1001,1002,1003,1004,1005,1006,1007,1008,1009,1010,1011,1012,1013,1014,1015,1016,1017,1018,1019,1020,1021,1022,1023,1024,1025,1026,1027,1028,1029,1030,1031,1032,1033,1034,1035,1036,1037,1038,1039,1040,1041,1042,1043,1044,1045,1046,1047,1048,1049,1050,1051,1052,1053,1054,1055,1056,1057,1058,1059,1060,1061,1062,1063,1064"]