میرے شہر کی باتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
میرے شہر کی باتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 5 جنوری، 2014

ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد ‘ اردو بلاگرز کی شرکت

پانی ضائع ہونے سے بچائیں ‘ ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد

گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔

سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔

ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔

اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔

میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔

سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔

میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔

خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں


یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں


[gallery link="file" ids="1288,1289,1290,1291,1292,1293,1294,1295,1296,1297,1298,1299,1300,1301,1302,1303,1304,1305,1306,1307,1308,1309,1310,1311,1312,1313,1314,1315,1316,1317,1318,1319,1320,1321,1322,1323,1324,1325,1326,1327,1328,1329,1330,1331,1332,1333,1334,1335,1336,1337,1338,1339,1340,1341,1342,1343,1344,1345,1346,1347,1348,1349,1350,1351,1352,1353,1354,1355,1356,1357,1358,1359,1360,1361,1362,1363,1364,1365,1366,1367,1368,1369,1370,1371,1372,1373,1374,1375,1376,1377,1378,1379,1380,1381,1382,1383,1384,1385,1386,1387,1388,1389,1390,1391,1392,1393,1394,1395,1396,1397,1398,1399,1400,1401,1402,1403,1404,1405,1406,1407,1408,1409,1410,1411,1412,1413,1414,1415,1416,1417,1418,1419,1420,1421,1422,1423,1424,1425,1426,1427,1428,1429,1430,1431,1432,1433,1434,1435,1436,1437,1438,1439,1440,1441,1442,1443,1444,1445,1446,1447,1448,1449,1450,1451,1452,1453,1454,1455,1456,1457,1458,1459,1460,1461,1462,1463,1464,1465,1466,1467,1468,1469,1470,1471,1472,1473,1474,1475,1476,1477"]

ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد ‘ اردو بلاگرز کی شرکت

پانی ضائع ہونے سے بچائیں ‘ ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد

گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔

سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔

ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔

اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔

میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔

سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔

میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔

خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں


یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں

اتوار، 22 دسمبر، 2013

تھوکا تھوکی تھوکاڑ

thookاس سے پہلے کہ میں ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘ کے بارے کچھ عرض کروں میں تینوں فارموں کی تشریح کرنا چاہوں گا۔
تھوکا ۔۔۔ ایک عام تھوک ( منہہ کا گندہ پانی ) جو ایک وقت میں ایک ہی بار ایک عام مقدار میں پھینکی جائے اسے میں نے تھوکا کا نام دیا ہے
تھوکی ۔۔ یہ ایک ایسی تھوک ہے جو ایک انسان راہ چلتے ہوئے بار بار پھینکتا ہے ۔۔۔ اسے میں نے تھوکی کا نام دیا ہے
تھوکاڑ ۔۔۔ یہ ایک ایسی تھوک ہے جو ایک انسان ریشے سے بھری ، یا پان کی پیک سے بھری، یا جان بوجھ کر منہہ بھر کر پھینکتا ہے ۔۔ اسے میں نے تھوکاڑ کا نام دیا ہے۔

گھر ہو یا باہر کچھ لوگ اس ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘ کی لت کا ایسا شکار ہیں کہ نہ آگے دیکھتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ، منہہ بھر کے اپنا لعاب دہن دھاڑ سے سڑک کے بیچ دے مارتے ہیں ۔۔۔ بندہ پوچھے بھائی اگر آپ نے تھوک پھینکنی ہی ہے تو آرام سے سائٹ پر ہو کر بھی پھینکی جا سکتی ہے ۔

دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ عموماً موٹر سائکل سوار چلتی ہوئی موٹر بائک سے ایسا تھوکاڑ مارتے ہیں کہ پیچھے آنے والا یا پیدل چلنے والا بیچارہ اس گندگی سے اپنا منہہ صاف کرتا اور اسے برا بھلا کہتا ہی نظر آتا ہے ۔

کئی بسوں کے مسافروًں میں بھی یہ حرکت دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ کھڑکی سے منہہ باہر نکال کو تھوکاڑ دے مارتے ہیں جس سے سڑک پر کھڑے لوگ اس کی اس حرکت پر عموماً غیلظ گالیوں سے نوازتے بھی دیکھے گئے ہیں ۔

اس گندی حرکت میں کرکٹ اور فٹ بال کے کئی نامور کھلاڑی بھی مبتلا پائے گئے ہیں جو کہ کھیل کے دوراں عموماً گراؤنڈ میں ‘‘ تھوکا ، تھوکی ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں ۔
چائے کا ہوٹل ہو یا روٹیوں کا تنور ( تندور ) وہاں کے کام کرنے والے بھی عموماً کام کے دوران کھانے پینے کی چیزوں کے درمیان ہی ‘‘ تھوکا ، تھوکی ‘‘ کرتے نظر آتے ہیں جس دیکھنے والے کی طبعیت مکدر ہوجاتی ہے اور وہ اسی وقت ساری عمر روٹی کھانے سے بھی توبہ کر بیٹھتا ہے ۔۔۔ مگر تھوڑے وقت بعد ہی وہ سب کچھ بھلا کر یہی سب کچھ کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔کیونکہ بھوک گندگی اور تہذیب پر حاوی ہوتی ہے ۔

پان کی دوکانوں کے سامنے تو ایسے ایسے تھوکاڑ پڑے نظر آتے ہیں کہ بندہ اسے دیکھتے ہی الٹیاں کرنا شروع کر دے ۔کراچی اور حیدرآباد شہر کی کوئی گلی ، محلہ ، سڑک ، فیلٹ اور اس کی سیڑھیاں ایسی نہیں ہیں جہاں تھوکاڑ کی بھرمار نہ ہوئی ہو ۔۔ ایسی ایسی پان کی پیکیں کہ تجریدی آرٹ بنانے والا اپنا سر پیٹ لے ۔

اگر رات کو ہم ٹوتھ پیسٹ کر کے اور اپنا ناک اور منہہ اچھی طرح صاف کر کے سوئیں اور صبح اٹھ کر بھی یہ صفائی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ سارا دن آپ اپنے منہہ کے گندے فالتو پانی سے بچ نہ سکیں۔

جب بھی کوئی چیز کھائیں فوراً اپنا منہہ صاف کریں ، یعنی اچھی طرح کلیاں کر لیں ۔۔ اس سے آپ کی صحت بھی صحیح رہے گی اور دوسرے بھی آپ کی ‘‘ تھوکا تھوکی تھوکاڑ ‘‘سے بچیں گے ۔
آخری بات ان لوگوں کے لئے جن کے منہہ سے بدبو آتی ہے ۔۔۔ایسے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ادرک کی ایک چھوٹی سی کاش کاٹ کر اپنے منہہ میں رکھ لیا کریں ان کے منہہ کی بو ختم ہو جائے گی


منگل، 12 نومبر، 2013

باجی کنجری ہار موتیے دے

motia-gajraسردیوں کی ٹھنڈی شامیں شروع ہوتے ہی موتیا کے پھولوں کا موسم بھی شروع ہو چکا ہوتا ہے ۔ویسے تو گلاب کو پھولوں کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے مگر موتیا کی خوشبو بھی اپنی مثال آپ ہے ۔بس یوں جانئے کہ اگر گلاب مرد ہے تو موتیا عورت ۔۔۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس دنیا میں عورت جیسی خوشبو کا بھی بھلا کوئی جوڑ ہوسکتا ہے ۔

موتیا کی خوشبو ایسی مدھر ہوتی ہے کہ مانو جیسے سونگھتے ہی مدہوشی چھا جائے ۔۔۔ ایسی مدہوشی کہ بندے کا دل چاہے کہ بس اسی خوشبو کی فضاؤں میں بیٹھا رہوں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھولوں کے بادشاہ کی موجودگی میں بھی عورتیں موتیا کی خوشبو کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔۔۔ شاید کہ موتیا کی خوشبو میں انہیں خود کی خوشبو نظر آتی ہو ۔۔۔

لاہور شہر میں داتا دربار سے تھوڑا آگے دائیں ہاتھ کو جائیں تو ٹکسالی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔جسے عرف عام میں ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے ۔آجکل ہیرا منڈی محرم کے احترام میں بند ہے ۔رمضان سمیت باقی کے گیارہ مہینوں میں ہیرا منڈی رات گیارہ سے ایک بجے تک کھلی رہتی ہے ۔ان دو گھنٹوں میں گانے بجانے کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ۔باقی کے ٢٢ گھنٹوں میں چھپ چھپا کر ہیرا منڈی میں گاہکوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو اپنی اپنی پسند کی مہہ جبیں کی زلفوں کے سائے تلے کچھ وقت گزار کر اپنی اپنی راہ لیتے نظر آتے ہیں ۔۔

لوگ کہتے ہیں اب ہیرا منڈی کی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔۔۔۔ اب تو لوگ ہیرا منڈی میں صرف پاوے کھانے آتے ہیں ۔۔۔۔ اب کہاں باجی کنجری اور کہاں ہار موتیے کے ۔۔۔۔۔اب تو ایسی آوازیں بھی خواب ہوئیں ۔۔۔
باجی کنجری ہار موتیے دے



ہفتہ، 6 جولائی، 2013

جہازوں کی دنیا سے ۔۔۔ کچھ شابو پہلوان کی باتیں

pomi1ہم ٢٠١٣ میں داخل ہو چکے ہیں مگر ہمارے پاکستان کے تقریباً ہر گلی محلے میں آپ کو آج بھی نشے کے عادی انسان کسی نالی میں گرے پڑے نظر آتے ہیں ۔آئیے آج ہم ایسے ہی ایک نشے کے عادی انسان سے باتیں کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں


pomi2


[audio: http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/07/pomi.mp3]


ایچ ٹی ایم ایل فائیو آڈیو پلئر




[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/99906479" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

اتوار، 30 جون، 2013

لنگوٹ کے پکے اور گانٹھ کے پورے حافظ سے چند باتیں

hafiz-pic

لیجئے قارئین و سامعین کرام آج ہم ایک نوجوان حافظ صاحب سے ملتے ہیں ۔ حافظ صاحب ٢٤ سال کے نوجوان لڑکے ہیں ۔شریف انسان ہیں جس کی گواہی ان کے محلے کی لڑکیاں اور عورتیں ہمہ وقت دے سکتی ہیں ۔محلے کے لڑکوں سے میں ملا نہیں اس لئے اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔

لیجئے ہمارے والے آڈیو پلئیر سے حافظ صاحب کی خوبصورت اور دور اندیش باتوں سے سبق حاصل کریں

[audio:http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/06/hafiz-28-06-131.mp3]

اگر اوپر والا آڈیو پلئیر نہ چلے یا پسند نہ آئے تو اس گوگل پلئیر سے فائدہ اٹھائیں




اگر گوگل سے دشمنی ہے تو نیچے دئے گئے ساؤنڈ کلاؤڈ سے دو دو ہاتھ کر لیں

[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/98970792" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

جمعرات، 27 جون، 2013

وڈے ( بڑے ) حکیم کا مختصر تعارف

لیجئے جناب آج ہم بڑے ( وڈے ) حکیمم صاحب کو اپنے بلاگ پر کھینچ لائے ہیں ۔آج صرف ان کی چند باتیں اور ان کی زبانی ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔وڈے حکیم صاحب ہر فن مولا ہیں ۔سادہ بندے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی خاک چھاننے کے بعد بھی ان سب سے بہتر اپنے ملک کو گروانتے ہیں اور اپنے ملک کے اندھیروں میں بیٹھ کر بھی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ آج صرف ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔ ان کی حکمت کی باتیں گاہے بگاہے آپ تک پہنچاتا رہوں گا

[audio:http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/06/hakeem-26-06-13-final.mp3]




پیر، 24 جون، 2013

شہرِ خموشاں سے تازہ بہ تازہ

umer-farooq-01
ہفتہ بھر میں ایک بار میں ضرور اپنے ماں باپ کی قبر پر جاتا ہوں ۔۔ شاید دعائیں لینے ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اور اس پر میرا ایمان بھی ہے کہ مردے کبھی کچھ نہیں دے سکتے۔۔ کیونکہ جو خود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو کیا دیں گے۔ بس مجھے اپنے ماں باپ سے انسیت ہے ، پیار ہے ۔۔ شاید اس لئے میں ان کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتا ۔قبرستان جانے کے لئے میں نے کوئی دن مخصوص نہیں کر رکھا اور نہ ہی میں قبروں یا مزاروں کا ماننے والا ہوں ۔۔۔ میں سیدھا اللہ سے مانگتا ہوں اور وہی میری مرادیں پورا کرتا ہے ۔

بات ہو رہی تھی قبرستان یعنی شہر خموشاں کی ۔۔۔ جہاں خموشی ہوتی ہے وہاں انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہے ۔اور اس سوچ میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے ۔اب آپ یہی دیکھیں بیت الخلا کی خاموشی میں بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن بیٹھے اور کچھ فلسفی ۔۔۔۔۔۔ ٹویٹر اور فیس بک اس کی زندہ مثال ہیں

ہمیں بھی کچھ نیا سوجھا ہے مگر ہمیں بیت الخلا کی خاموشی میں نہیں بلکہ قبرستان کی خموشی میں کچھ نیا سوجھا ہے ۔وہاں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اب بلاگنگ کو نیا رنگ دیا جائے یعنی تحریر کے ساتھ ساتھ اب آڈیو اور ویڈیو بلاگنگ کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے تو اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم نے قبرستان کے گورکن کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو کہ آپ کی نظر ۔۔۔انٹرویو دو حصوں پر محیط ہے پہلا حصہ تقریبا پندرہ منٹ اور دوسرا ڈیڑھ منٹ کا ہے ۔تو آئیے سنتے ہیں ۔۔۔


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-001.mp3]


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-002.mp3]


umer-farooq-02



منگل، 11 جون، 2013

اختیار کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو استمال کرنا بڑی بات ہے

اختیارات کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو دھڑلے سے استمال کرنا ایک بڑی بات اور فن ہے۔جس کا استمال تھوڑے دل کا، بزدل یا بیوقوف آدمی نہیں کر سکتا ۔اب یہی دیکھیں کہ اگر ایک چوڑا ( جمعدار ) جس کے پاس لیٹرین کے اندر داخل کرنے کا اختیار ہے اگر وہ اپنے اختیار کو سمجھتے ہوئے اسے استمال کرنے کا فن جانتا ہوگا تو وہ ایک صدر کو اپنی لیٹرین کے باہر تب تک روک کر رکھ سکتا ہے جب تک اس کا پاخانہ نہ نکل جائے ۔

قانون کیا کہتا ہے یا قوانین کیا ہیں ۔ آپ اپنے عہدے کے ساتھ اپنے اختیارات قوانین کے دائیرے میں رہ کر کیسے استمال کرنے ہیں یہ ایک فن ہے ۔ ویسے بھی اختیارات کے ہوتے ہوئے اختیارات کا صحیح طریقے سے استمال کرنا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے ۔

میاں محمد اظہر گورنر تھا ۔۔۔منظور وٹو وزیراعلیٰ تھا ۔۔۔اختیارات کے استمال کا فن منظور وٹو کو تھا ۔۔۔ میاں اظہر ماں کی خدمت کرنے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھا ۔۔۔ پرویز مشرف جنرل تھا ۔۔۔ اختیارات کے استمال کا فن مشرف کو تھا ۔۔۔ میاں صاحب اللہ کے گھر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔۔ زرداری صدر مملکت ۔۔۔ پانچ سال سب کو تگنی کا ناچ نچا دیا ۔۔۔ آج بھی صدر ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔ رحمان ملک وزیر داخلہ ۔۔۔ ایسا وزیر داخہ جس کا پورے ملک پر راج ۔۔۔ جو کہتا تھا کردیتا تھا ۔۔۔ جھوٹ کو سچ پر منوانے کا فن بھی جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت تھی ۔۔۔۔ کچھ نہ بگاڑ سکے۔

اور اب مسلم لیگ نون کی اختیارات والی حکومت ۔۔۔ دس دن ہونے کو ہیں ۔۔۔ تمام ٹولہ پیپلز پارٹی کا موجود ۔۔۔۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔۔۔ اختیارات استمال کرنے کا سلیقہ ہی نہیں ۔۔۔ ڈاکو لٹیرے اپنی سیٹوں پر جوں کے توں براجمان ۔۔۔ملک ابھی تک اندھیرے میں

اور آج صدر زرداری نے دھڑلے سے اسمبلی میں اپنے سامنے بے نظیر کی تصویر رکھ کر اسمبلی میں خطاب کیا ۔۔۔ کسی مسلم لیگی کی ہمت تک نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر کہہ سکے کہ یہ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے باپ کی جاگیر ۔۔۔ حتکہ سپیکر صاحب کو اپنے اختیارات تک کا نہیں پتہ کہ وہ صدر کو منع کرسکتا تھا کہ یہاں اسمبلی میں تصویر صرف قائد اعظم کی لگے گی۔۔بے نظیر کی نہیں ۔۔۔۔۔

واہ رے مسلم لیگ تیری حکومت
ملک ابھی تک اندھیرے میں ہے

اٹھو مسلم لیگی حکمرانوں ۔۔۔اگر بچنا ہے تو ۔۔۔۔۔ روشن پاکستان بنانا ہے تو ۔۔۔۔۔ کرو اپنے اختیارات کا استمال ۔۔۔۔ چوروں ڈاکؤں لٹیروں کو کھڈے لائن لگا دو





منگل، 4 جون، 2013

لوڈ شیڈنگ کم ہونے جارہی ہے ۔۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

سخت گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے گھٹا ٹوپ اندھرے میں ہمارے موکلوں نے دعوٰی کیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے حلف اٹھانے کے ایک ہفتہ بعد ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔موکلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین ماہ سے چھ ماہ میں پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا روزانہ کا دورانیہ ٥ سے ٦ گھنٹے رہ جائے گا۔ انڈسٹری ایریا میں صرف ٣ گھنٹے روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوا کرے گی ۔



پیر، 27 مئی، 2013

اردو بلاگرز اور اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام

تقریباً ایک ہفتہ قبل فیس بک پر انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) نے میرا دروازہ کھٹکایا اور کہا کہ بھائی آپ ابھی تک سوئے پڑے ہیں کیا کوئی لاہور میں ہلاگلا کرنے کا ارادہ بھی ہے یا کہ نہیں ۔۔۔ ہم نے بھی ایک آنکھ کھول کر پہلے انکل ٹام کو دیکھا پھر سوچا کہ کہیں یہ ٹام اینڈ جیری والے ٹام نہ ہوں اس لئے دوسری آنکھ کھول کر ہم نے فوراً کہا کہ کیوں نہیں جب کہیں بنا لیتے ہیں پروگرام ۔۔۔۔۔۔ ہم نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کو اگلے ہی ہفتہ میں یعنی گذشتہ روز چھبیس مئی دوہزار تیرہ بروز اتوار شام چھ بجے کا کہہ دیا ۔

گذشتہ روز سخت گرمی میں ایک خوبصورت شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ ہم پونے چھ بجے ہی پاک ٹی باؤس جاکر بیٹھ گئے اور لگے بھائی لوگوں کا انتظار کرنے ۔سب سے پہلے محفل کے ہمارے خوبصورت اور دبنگ دوست بابا جی سرکار تشریف لائے ۔پھر اپنے ساجد بھائی اپنے دو عدد مہمانوں کے ساتھ تشریف لائے ۔جن میں سے ایک گلگت کے معروف صحافی تھے اور ایک لاہور کے معروف لکھاری ۔۔۔ بعد ازاں انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) محمد عبداللہ اپنے ایک کزن کے ساتھ تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حجاب شب ، عاطف بٹ صاحب ، سبہانی صاحب اور دیگر دوست بھی تشریف لے آئے ۔

چائے کا دور شروع ہوا ۔۔سب کو پوچھنے کے بعد میں نے خصوصی طور پر ارسلان شکیل سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے ۔۔ارسلان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کھانا بلکہ وہ ہمارے سب کے لئے ٹورنٹو ( کینڈا) سے پیزا بنوا کر لائے ہیں۔میرے سمیت سب بڑے حیران ہوئے ۔۔ کیونکہ ہمیں بلکل بھی نہیں پتہ تھا کہ انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔ارسلان شکیل کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے بالکل بھی نہیں سویا ہوں اور اس وقت مجھے کولڈ کافی کی طلب ہو رہی ہے ۔۔۔ اب ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں کولڈ کافی تو ملنی مشکل تھی اس لئے انہیں معذرت کے ساتھ جوس پیش کیا گیا ۔اور ہم سب نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کے والد صاحب کا خصوصی طور پر بنایا گیا ایک انتہائی لذیز پیزا چائے کے ساتھ نوش کیا۔ اور ساتھ اللہ کی قدرت کی تعریف کی کہ کس پانی ، اجزا اور کہاں اور کس کے ہاتھ کا بنا ہوا پیزا کس جگہ اور کون لوگ کھا رہے ہیں ۔۔۔ یعنی دانے دانے پر مہر ہوتی ہے ۔۔۔کوئی کسی کا لقمہ نہ تو چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا لقمہ کھا سکتا ہے ۔۔جب تک پروردگار نہ چاہے ۔

چائے کے دوران اور چائے کے بعد معلوماتی باتیں اور گپ شپ ہوتی رہی ۔ محمد عبداللہ ذرا تھوڑے کم گو تھے اس لئے انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں مگر سب کی باتوں میں سے تجربے کی باتیں اپنی پٹاری میں جمع کرتے رہے ۔عاطف بٹ ، ساجد ، بابا جی اور ہمارے درمیان حسب معمول جگت بازی ، چٹکلے اور شرارتیں چلتی رہیں ۔ آخر کار نو بجے کے قریب یہ خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔

[gallery ids="994,995,996,997,998,999,1000,1001,1002,1003,1004,1005,1006,1007,1008,1009,1010,1011,1012,1013,1014,1015,1016,1017,1018,1019,1020,1021,1022,1023,1024,1025,1026,1027,1028,1029,1030,1031,1032,1033,1034,1035,1036,1037,1038,1039,1040,1041,1042,1043,1044,1045,1046,1047,1048,1049,1050,1051,1052,1053,1054,1055,1056,1057,1058,1059,1060,1061,1062,1063,1064"]



ہفتہ، 11 مئی، 2013

اس دفعہ حکومت مسلم لیگ نواز کی ہو گی ۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

پاکستان میں قومی الیکشن 2013 کی پولنگ شروع ہونے میں پانچ گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ایسے میں ہمارے موکلوں نے آخری پیشگوئی کر دی ہے ۔ موکلوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون 120 سے زائد سیٹیں لے کر ہمدردوں کے ساتھ حکومت بنائے گی ۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ہمارے موکلوں کا کہنا تھا کہ اسے 20 سے 25 سیٹیں مل سکتی ہیں ۔۔۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں ہمارے موکلوں نے 40 سے 50 سیٹیوں کی پیشگوئی کی ہے

ہم نے موکلوں کے روحانی پیشوا بابے عیدو سے جب موکلوں کی اس پیشگوئی بارے رائے پوچھی تو وہ گم سم سے نظر آئے ۔ ان کا بس یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے رائے محفوظ رکھتے ہیں



اتوار، 28 اپریل، 2013

اردو بلاگرز اور محفلین کا جوڑ

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں آج مورخہ 27 اپریل 2013 بروز ہفتہ اردو بلاگرز اور محفلین کی گیٹ ٹو گیدر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جاپان سے آئے ہوئے پرانے اور منجھے ہوئے اردو بلاگر خاور کھوکھر نے کی ۔دیگر اردو بلاگرز اور محفلین میں سے زوہیر چوہان ، ساجد ، فراز ( باباجی ) ، عاطف بٹ ، نیر احمد اور پردیسی ( نجیب عالم ) شامل تھے ۔مہمانان ِ گرامی جو پاک ٹی ہاؤس سے شامل ہوئے ان میں ‘‘ دی ورلڈ یوتھ ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر اور ان کے خوبصورت دوست و احباب اور سٹاف شامل تھا ۔

[gallery ids="923,924,925,926,927,928,929,930,931,932,933,934,935,936,937,938,939,940,941,942,943,944,945,946,947,948,949,950,951,952,953,954,955,956,957,958,959,960,961,962,963,964,965,966"]



بدھ، 3 اپریل، 2013

بڑا بولتے تھے صحافی

ایک اٹھ کے کہتا تھا ۔۔۔ سیاستدان ڈاکو ہیں ۔۔۔ دوسرا اٹھ کے آواز لگاتا تھا ۔۔۔ سیاستدان لٹیرے ہیں ۔۔ تیسرے کی نشے سے آنکھ کھلتی تھی ۔۔ بولتا تھا ۔۔۔ چور ہیں ۔۔ کچھ تو یہاں تک کہتے تھے کہ چھیاسٹھ سالوں میں جہاں ڈکٹیٹروں نے پاکستان کو جی بھر کے لوٹا ہے وہاں سیاستدانوں نے اس کا ککھ نہیں رہنے دیا۔یعنی باقی بچا کھچا یہ ہڑپ کر گئے ہیں
میں بھی ان کے قبیلے کا ہوتے ہوئے مانتا ہوں کہ یہ سب صحیح کہتے ہیں ۔۔ اور دیکھا جائے تو حقیقت بھی یہی ہے
اب جبکہ زرداری نے امریکہ کی آشیرباد سے اپنے شطرنج کے مہرے سمیٹتے ہوئے ایک صحافی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوا دیا ہے اور دوسرے کو وفاقی وزیر کے طور پر لگا کر ایک تو ان کی ہمدردیاں سمیٹ لیں ہیں دوسرا گیند ان کے کورٹ میں پھینک کر ان کو کھلا چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔
پنجاب کا وزیر اعلیٰ صحافی بن گیا ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہے ۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات بھی صحافی بن گیا ۔۔۔ اب خبر تو کوئی بھی جھوٹی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہو گی
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معزز صحافی گیند سے کھیلتے ہیں یا گیند کو پھاڑتے ہیں



اتوار، 31 مارچ، 2013

پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں

شنید ہے کہ پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اچھی بات ہے زندگی میں کچھ شغل میلہ بھی تو ہونا چاہئے ۔اب یہ کیا کہ بم دھماکوں سے ہی ہم معصوم بچے اور بڑوں کو مرتا دیکھیں ۔اب دہشت گردی میں کچھ نیا پن بھی تو آنا چاہئے ۔۔ آٹھ دس بچوں کے گلے کٹیں ، کچھ عورتیں لہولہان ہوں اور مرد اپنے ٹوٹی ٹانگوں والے بچوں کو ہسپتال لئے لئے پھریں ۔
اب بہت ہوچکا ۔۔۔ میرا خیال ہے ارباب اختیار اور پاکستانی ٹی وی میڈیا کو ایسا سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے جو بسنت کو منانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔اگر کسی قاتل پتنگ کی ڈور سے کسی بچے کی گردن کٹ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔



منگل، 26 مارچ، 2013

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں محفلین کے اعزاز میں ایک پرتکلف پارٹی کا اہتمام

مورخہ 24 مارچ 2013 بروز اتوار کو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اردو محفل کے آراکین کی جانب سے محفلین کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔جس میں محفلین میں سے عاطف بٹ ، بابا جی ، متلاشی ، عبدالرزاق ، محمد عمرفاروق ، نعیم قیصر، محمدکامران اختر اور پردیسی نے شرکت کی ۔
[gallery ids="761,762,763,764,765,766,767,768,769,770,771,772,773,774,775,776,777,778,779,780,781,782,783,784,785,786,787,788,789,790,791,792,793,794,795,796,797,798,799,800,801,802,803,804,805,806,807,808,809,810,811,812,813,814,815,816,817,818,819,820,821,822,823,824,825,826,827,828,829,830,831,832,833,834,835,836,837,838,839,840,841,842,843,844,845,846,847,848,849,850,851,852,853,854,855,856,857,858,859,860,861,862,863,864,865,866,867,868,869,870,871,872,873,874,875,876,877,878,879,880,881,882,883,884,885,886,887,888,889,890"]



پیر، 25 فروری، 2013

لاہور بلاگروں کا بڑے پیزے کو ہڑپ کرنا

اتوار کا دن تھوڑا مصروف ہوتا ہے اور اوپر سے عبدالقدوس کی جانب سے لاہور کے بلاگروں کے اکٹھ کا سندیسہ بھی تھا۔جلدی جلدی بیوی کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اپنے کام نمٹا کر میں نے تقریباً سوا دو کے قریب زوہیر کو فون کیا کہ میں بس تین بجے تک پہنچ رہا ہوں ۔زوہیر کا کہنا تھا کہ ہم آپ کا انتظار کریں گے ۔
سوا تین کے بعد میں لاہور گلشن راوی کے بگ پیزا ہاؤس میں داخل ہوا تو سامنے ہنستے کھیلتے زوہیر صاحب ، سعد ملک صاحب ، ایم بلال صاحب ۔ عبدالقدوس صاحب اور ان کے ہنس مکھ بھائی بیٹھے ایک بڑے پیزے کو ہڑپ کرنے میں مصروف تھے ۔
میرے السلام علیکم یا اہل المجالس کہنے پر سب محترم دوستوں نے جواب دینے کے ساتھ ہی پیزے کی بھی پیشکش کر دی ۔سعد ملک نے اپنی جگہ پیش کرتے ہوئے پیزا ڈالنا شروع کر دیا ۔کھانے کے ساتھ ساتھ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ بہت سی باتیں ہوئی ۔باتوں باتوں میں ہی ہم لوگوں نے بٹ صاحب ( عبدالقدوس ) کی مہمان نوازی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو بڑے سائز کے پیزوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے سادی بوتلوں سے خوب انجوائے کیا۔
میں خصوصی طور پر ایم بلال کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ گجرات سے تشریف لائے اور ہمیں اپنی خوبصورت باتوں سے ہنسانے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں بھی اضافہ کرتے رہے ۔



[gallery ids="714,715,716,717,718,719,720,721,722,723,724,725,726,727,728,729,730,731,732,733,734,735,736,737,738,739,740,741,742,743,744,745,746,747,748"]

مکمل تصاویر یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں


اتوار، 17 فروری، 2013

توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے

روکو روکو روکو ذرا ۔۔۔۔گاڑی روکو ۔۔۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔

آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔


اتوار، 10 فروری، 2013

مذہبی اجتماعات گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئیں

miladکچھ خود ساختہ مولوی لوگ تنگ نظر ، اپنے تئیں شریعیت کے پکے ( ایسی شریعیت جس کو وہ اپنی مرضی اور مفاد کے لئے جیسے جی چاہے ڈھال لیں) ہٹ دھرم ، گھانٹ کے پورے ، پیسے کے پیر ، دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت کے مصداق ایسی شاندار مخلوق ہیں ، جن سے آپ ساری زندگی بھی بحث و مباحثہ کرتے رہیں ، نہیں جیت سکتے ، یعنی کہ ان کے دماغ میں اتنا بھوسہ بھرا ہوتا ہے کہ آپ اپنی بات ان کے دماغ میں ڈالنا تو دور کی بات پاس سے بھی نہیں گزار سکتے۔

یہ عین ممکن ہے کہ میری یہ سوچ غلط ہوں مگر لوگوں کے ساتھ ایسے مولویوں کا برتاؤ اس بات کا شاہد ہے کہ میری یہ سوچ غلط نہیں ہے ۔ہاں یہ میں مانتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے مگر فی زمانہ آپ مشاہدہ اور کھوج لگا کر دیکھ لیں کہ زیادہ تر خود ساختہ مولوی اسی ترازو میں پورے اتریں گے جس کا میں نے ان کی ذات و صفات سمیت ذکر خیر کیا ہے ۔

علم صبر اور عاجزی سکھاتا ہے ، تفرقے بازی نہیں ۔ مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر واعظ کی بجائے ہڑبونگ مچانا اور لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کرکے اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔
کسی مخصوص جگہ کے علاوہ سرراہ گلیوں ، بازاروں میں میلاد ، مجلس یا کوئی محفل منعقد کر کے ایسا سیکورٹی رسک پیدا کرنا جس سے عام انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو ، کہاں کا اسلام اور کہاں کا انصاف ہے ۔اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی محبت و عقیدت ہے تو حکومت سے کہہ کر ایک جگہ مقرر کروا لیں اور اپنے مذہب کے مطابق جو جی چاہے رسومات ادا کریں ۔
کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟

میں یہ بات آج پھر کہوں گا کہ اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، عداوت ، شدت پسندی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئیں۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔



جمعرات، 24 جنوری، 2013

چوری کا ثواب

استاد بلے کا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے۔کتنی بار منع کیا ہے کہ استاد جی مذہب کے معاملات میں نہ بولا کرو ، نہ بولا کرو مگر استاد بلا ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔میرا خیال ہے جب تک استاد بلے کو ہفتہ وار گالیاں نہ پڑیں اسکی طبعیت سیر ہی نہیں ہوتی ۔
بھلا کیا پڑی تھی بھرے چوک میں کہنے کہ کہ عید میلادالنبی پر چوری کی بتیوں سے چراغاں کیا جاتا ہے ۔بندہ پوچھے تو تو دو عیدوں کے علاوہ کسی اور عید کو مانتا ہی نہیں اور بھلا تجھے کیا پتہ ان کو کتنا پیار ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔۔۔۔۔۔ مگر اس کا کہنا ہے کہ میلاد ہو ، مجلس ہو ، میلاالنبی ہو سب چوری کی بجلی استمال کرتے ہیں ۔ان سب کا محاسبہ ہونا چاہئے اور ان سب سے پائی پائی وصول کرنی چاہئے۔
بہت بار سمجھایا ہے استاد بلے کو مگر وہ مانتا ہی نہیں ۔۔۔ کہتا ہے یہ سب ثواب کمانے کی بجائے گناہ کما رہے ہیں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...