یہ عین ممکن ہے کہ میری یہ سوچ غلط ہوں مگر لوگوں کے ساتھ ایسے مولویوں کا برتاؤ اس بات کا شاہد ہے کہ میری یہ سوچ غلط نہیں ہے ۔ہاں یہ میں مانتا ہوں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے مگر فی زمانہ آپ مشاہدہ اور کھوج لگا کر دیکھ لیں کہ زیادہ تر خود ساختہ مولوی اسی ترازو میں پورے اتریں گے جس کا میں نے ان کی ذات و صفات سمیت ذکر خیر کیا ہے ۔
علم صبر اور عاجزی سکھاتا ہے ، تفرقے بازی نہیں ۔ مسجد کے ممبر پر بیٹھ کر واعظ کی بجائے ہڑبونگ مچانا اور لوگوں کو اسلام کے نام پر گمراہ کرکے اپنے پیٹ کے دوزخ کو بھرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔
کسی مخصوص جگہ کے علاوہ سرراہ گلیوں ، بازاروں میں میلاد ، مجلس یا کوئی محفل منعقد کر کے ایسا سیکورٹی رسک پیدا کرنا جس سے عام انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو ، کہاں کا اسلام اور کہاں کا انصاف ہے ۔اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی محبت و عقیدت ہے تو حکومت سے کہہ کر ایک جگہ مقرر کروا لیں اور اپنے مذہب کے مطابق جو جی چاہے رسومات ادا کریں ۔
کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟
میں یہ بات آج پھر کہوں گا کہ اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، عداوت ، شدت پسندی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئیں۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں