اتوار، 17 فروری، 2013

توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے

روکو روکو روکو ذرا ۔۔۔۔گاڑی روکو ۔۔۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔

آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔


1 تبصرہ:

  1. صحیح کہا مگر یہ وہم اکثر کے دل اور دماغ میں یوں گھر کر گیا ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا جب کہ سب جانتے ہیں کہ یہ تو بس ایک وہم ہی ہے

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...