مینار پاکستان کو یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔یہ مینار مغلیہ اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک شاندار شاہکار ہے۔ مینار پاکستان ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کی قرارداد کے نتیجے میں وجود میں آیا جبکہ اس کی تعمیر ١٩٦٠ میں شروع ہوئی اور اسے اکتوبر ١٩٦٨ میں مکمل کر لیا گیا ۔اس کا ڈیزائین نصیر الدین خان نے بنایا جبکہ اس کی تعمیر سول انجینیر عبدالرحمن خان نیازی کی نگرانی میں کی گئی ۔اقبال پارک کے ساتھ یہ خوبصورت مینار اپنی مثال آپ ہے ،اگر آپ اس کے سامنے کے رخ پر کھڑے ہوں آپ کے دائیں ہاتھ راوی روڈ جبکہ بائیں ہاتھ بادامی باغ اورسامنے کے رخ پر بادشاہی مسجد ، شاہی قلعہ نظر آتے ہیں ۔
یہ تصاویر کینن ڈی ٦٠٠ ڈی کے کیمرہ سے کھنچی گئی ہیں جس میں اٹھارہ ضرب پچپن کا لینز استمال کیا گیا ہے
[gallery ids="1328,1329,1330,1331,1332,1333,1334,1335"]
شیخو بلاگ میں تازہ نیوز ، ذاتی حالات زندگی ، معاشرتی پہلو اور تازہ ٹیکنیکل نیوز کے متعلق لکھا جاتا ہے
lahore لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
lahore لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
منگل، 27 مئی، 2014
اتوار، 5 جنوری، 2014
ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد ‘ اردو بلاگرز کی شرکت
پانی ضائع ہونے سے بچائیں ‘ ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد
گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔
سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔
اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔
میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔
سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔
میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔
خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں
یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں
[gallery link="file" ids="1288,1289,1290,1291,1292,1293,1294,1295,1296,1297,1298,1299,1300,1301,1302,1303,1304,1305,1306,1307,1308,1309,1310,1311,1312,1313,1314,1315,1316,1317,1318,1319,1320,1321,1322,1323,1324,1325,1326,1327,1328,1329,1330,1331,1332,1333,1334,1335,1336,1337,1338,1339,1340,1341,1342,1343,1344,1345,1346,1347,1348,1349,1350,1351,1352,1353,1354,1355,1356,1357,1358,1359,1360,1361,1362,1363,1364,1365,1366,1367,1368,1369,1370,1371,1372,1373,1374,1375,1376,1377,1378,1379,1380,1381,1382,1383,1384,1385,1386,1387,1388,1389,1390,1391,1392,1393,1394,1395,1396,1397,1398,1399,1400,1401,1402,1403,1404,1405,1406,1407,1408,1409,1410,1411,1412,1413,1414,1415,1416,1417,1418,1419,1420,1421,1422,1423,1424,1425,1426,1427,1428,1429,1430,1431,1432,1433,1434,1435,1436,1437,1438,1439,1440,1441,1442,1443,1444,1445,1446,1447,1448,1449,1450,1451,1452,1453,1454,1455,1456,1457,1458,1459,1460,1461,1462,1463,1464,1465,1466,1467,1468,1469,1470,1471,1472,1473,1474,1475,1476,1477"]
گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔
سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔
اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔
میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔
سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔
میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔
خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں
یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں
[gallery link="file" ids="1288,1289,1290,1291,1292,1293,1294,1295,1296,1297,1298,1299,1300,1301,1302,1303,1304,1305,1306,1307,1308,1309,1310,1311,1312,1313,1314,1315,1316,1317,1318,1319,1320,1321,1322,1323,1324,1325,1326,1327,1328,1329,1330,1331,1332,1333,1334,1335,1336,1337,1338,1339,1340,1341,1342,1343,1344,1345,1346,1347,1348,1349,1350,1351,1352,1353,1354,1355,1356,1357,1358,1359,1360,1361,1362,1363,1364,1365,1366,1367,1368,1369,1370,1371,1372,1373,1374,1375,1376,1377,1378,1379,1380,1381,1382,1383,1384,1385,1386,1387,1388,1389,1390,1391,1392,1393,1394,1395,1396,1397,1398,1399,1400,1401,1402,1403,1404,1405,1406,1407,1408,1409,1410,1411,1412,1413,1414,1415,1416,1417,1418,1419,1420,1421,1422,1423,1424,1425,1426,1427,1428,1429,1430,1431,1432,1433,1434,1435,1436,1437,1438,1439,1440,1441,1442,1443,1444,1445,1446,1447,1448,1449,1450,1451,1452,1453,1454,1455,1456,1457,1458,1459,1460,1461,1462,1463,1464,1465,1466,1467,1468,1469,1470,1471,1472,1473,1474,1475,1476,1477"]
ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد ‘ اردو بلاگرز کی شرکت
پانی ضائع ہونے سے بچائیں ‘ ورلڈ بنک اور واسا کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد
گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔
سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔
اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔
میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔
سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔
میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔
خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں
یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں
گذشتہ روز ورلڈ بنک اور واسا لاہور کی جانب سے ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں اردو بلاگرز ، طالب علم ، انڈسٹری سے متعلق افراد اور واسا سٹاف شریک ہوئے ۔جبکہ ورلڈ بنک کی نمائندگی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سپیشلسٹ مسٹر مسرور احمد اور ریجنل کیمونیکیشن سپیشلسٹ محترمہ وندانہ مہرا نے کی ۔کواڈینیٹر کے فرائض مسٹر مزمل اور ان کی اسسٹنٹ ساتھی نے ادا کئے
ورکشاپ کے پہلے سیشن میں مسٹر مسرور احمد نے عام عوام کی جانب سے پانی کے ضیاع کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے دیہات میں بیت الخلا کی کے صحیح نظام کو رائج کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ جہاں اس سے صفائی کا نظام بہتر ہو گا وہاں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت بیماریوں پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی ۔محترمہ وندانہ مہرا کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی ستر پرسنٹ سے زاید دیہاتی آبادی میں بھی سینی ٹیشن کے حوالے سے خاصی تشویشناک صورتحال تھی جس پر ورلڈ بنک کے تعاون سے بڑی حد تک قابو پا لیا گیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے محکمے اور عوام کے درمیان رابطہ بے حد ضروری ہے ۔محترمہ وندانہ مہرا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا آج کی ورکشاپ منعقد کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہم کس طرح سے عام عوام اور محمکمے کے درمیان تعلق کو فعال اور بہتر بنا سکتے ہیں ۔
سوال و جواب کے سیشن میں اردو بلاگر ساجد شیخ نے واسا کے افسران پر عوام کی بروقت شکایات دور کرنے پر زور دیا تاکہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہو ۔اردو بلاگر عاطف بٹ نے واسا کے حکام اور عوام میں ربط بڑھانے کے لئے سوشل میڈیا اور اردو بلاگرز کی افادیت کو اجاگر کیا اور ان کے استمال کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا ۔اردو بلاگر نجیب عالم ( شیخو) نے واسا کے افسران کی توجہ پانی کی سرعام چوری اور اس کے ضیاع پر دلائی اور اسے کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیا۔
ٹریڈ سٹون کی ڈائیریکٹر سائرہ خان ( سائیکالوجسٹ ) نے عام عوام اور محکمے میں ربط بڑھانے پر ٹیکسٹ میسج کی ضرورت پر زور دیا اور ہنگامی صورتحال میں محلے کی مساجد میں اعلان کروانے کی تجویز پیش کی ۔ایک اور بڑی اہم تجویز جو انہوں نے پیش کی وہ یہ تھی کہ گلی محلہ لیول پر وہاں کے پڑھے لکھے اور سرکردہ افراد کو ٹرینگ مہیا کی جائے ۔تاکہ عام آدمی اور محکمے کے درمیان آسانی سے رابطہ ممکلن ہو سکے ۔
اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر شیخ عظمت علی ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر محمد رحمان خان ، اسسٹنٹ ڈائیریکٹر بلال شاہ کا کہنا تھا کہ لاہور میں اس وقت ٤٩١ ٹیوب ویل کام کر رہے ہیں جو کہ آپس میں انٹرلنک ہیں اور ہم لوڈ شیڈنگ کے باوجود چیف منسٹر میاں شہباز شریف کی ہدایات کی روشنی میں عوام کو مسلسل چوبیس گھنٹے پانی سپلائی کر رہے ہیں ۔
میری جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ لاہور کے گلی کوچوں میں یہ جو فلٹریشن شاپ کھلی ہوئی ہیں جہاں سے عوام پانی خرید کر پی رہی ہے ۔۔ کیا یہ پانی ٹھیک ہے اور کیا یہ واسا کے علم میں ہے ۔میرے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر واسا وردہ عمان کا یہ کہنا تھا کہ ان فلٹریشن پلانٹ والی دکانوں کو ہم نے یعنی واسا نے لائینسس جاری کئے ہیں اور ہم ان پر مکمل چیک رکھتے ہیں تاکہ یہ لوگ عوام کو حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی مہیا کریں ۔
سوال و جواب کے سیشن کے بعد کھانے پینے کا مرحلہ آ پہنچا ۔۔۔ عین دوپہر کے وقت میں یعنی ١٢ سے ٣ بجے دعوت دی گئی تھی اس لئے تقریباً سب ہی بھوکے تھے ۔سب کی میزوں پر مختلف رنگوں سے سجے بسکٹوں کی ایک ایک بھری ہوئی پلیٹ سجا دی گئی اور تھوڑا دور شادی والے ماحول کی طرح ایک بڑا سا کولر گرما گرم گرین چائے کا سجا کر ہمیں کھلا چھوڑ دیا گیا ۔
میں مزے سے بسکٹ کھا کر یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ہم سب بھی اسی طرح کفایت شعاری کا مظاہرہ کیا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ورلڈ بنک کی طرح امیر نہ ہوجائیں ۔ اب یہی دیکھیں سات پلیٹوں اور ایک گرین چائے کے کولر میں اگر پچاس آدمی بھگتائے جاسکتے ہیں تو ایک شادی جس میں دو سو بندے شریک ہوں اٹھائیس پلیٹوں میں کیوں نہیں بھگتائے جاسکتے ۔
خیر یہ حسابی کتابی باتیں ہیں ان کو ہم بھی ورلڈ بنک اور واسا کے درمیان کھلا چھوڑ دیتے ہیں
یہاں بلاگ پر آدھی تصاویر رکھی گئی ہیں ۔۔۔ مکمل تصاویر آپ میرے گوگل پلس کے پروفائل سے دیکھنے اور ڈاؤنلوڈ کر نے کے لئے یہاں کلک کریں
منگل، 12 نومبر، 2013
باجی کنجری ہار موتیے دے
موتیا کی خوشبو ایسی مدھر ہوتی ہے کہ مانو جیسے سونگھتے ہی مدہوشی چھا جائے ۔۔۔ ایسی مدہوشی کہ بندے کا دل چاہے کہ بس اسی خوشبو کی فضاؤں میں بیٹھا رہوں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پھولوں کے بادشاہ کی موجودگی میں بھی عورتیں موتیا کی خوشبو کو زیادہ پسند کرتی ہیں ۔۔۔ شاید کہ موتیا کی خوشبو میں انہیں خود کی خوشبو نظر آتی ہو ۔۔۔
لاہور شہر میں داتا دربار سے تھوڑا آگے دائیں ہاتھ کو جائیں تو ٹکسالی کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے ۔جسے عرف عام میں ہیرا منڈی بھی کہا جاتا ہے ۔آجکل ہیرا منڈی محرم کے احترام میں بند ہے ۔رمضان سمیت باقی کے گیارہ مہینوں میں ہیرا منڈی رات گیارہ سے ایک بجے تک کھلی رہتی ہے ۔ان دو گھنٹوں میں گانے بجانے کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ۔باقی کے ٢٢ گھنٹوں میں چھپ چھپا کر ہیرا منڈی میں گاہکوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے جو اپنی اپنی پسند کی مہہ جبیں کی زلفوں کے سائے تلے کچھ وقت گزار کر اپنی اپنی راہ لیتے نظر آتے ہیں ۔۔
لوگ کہتے ہیں اب ہیرا منڈی کی وہ بہاریں کہاں ۔۔۔۔۔۔ اب تو لوگ ہیرا منڈی میں صرف پاوے کھانے آتے ہیں ۔۔۔۔ اب کہاں باجی کنجری اور کہاں ہار موتیے کے ۔۔۔۔۔اب تو ایسی آوازیں بھی خواب ہوئیں ۔۔۔
باجی کنجری ہار موتیے دے
جمعرات، 27 جون، 2013
وڈے ( بڑے ) حکیم کا مختصر تعارف
لیجئے جناب آج ہم بڑے ( وڈے ) حکیمم صاحب کو اپنے بلاگ پر کھینچ لائے ہیں ۔آج صرف ان کی چند باتیں اور ان کی زبانی ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔وڈے حکیم صاحب ہر فن مولا ہیں ۔سادہ بندے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی خاک چھاننے کے بعد بھی ان سب سے بہتر اپنے ملک کو گروانتے ہیں اور اپنے ملک کے اندھیروں میں بیٹھ کر بھی خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ آج صرف ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے ۔ ان کی حکمت کی باتیں گاہے بگاہے آپ تک پہنچاتا رہوں گا
[audio:http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/06/hakeem-26-06-13-final.mp3]
[audio:http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/06/hakeem-26-06-13-final.mp3]
پیر، 24 جون، 2013
شہرِ خموشاں سے تازہ بہ تازہ
ہفتہ بھر میں ایک بار میں ضرور اپنے ماں باپ کی قبر پر جاتا ہوں ۔۔ شاید دعائیں لینے ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اور اس پر میرا ایمان بھی ہے کہ مردے کبھی کچھ نہیں دے سکتے۔۔ کیونکہ جو خود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو کیا دیں گے۔ بس مجھے اپنے ماں باپ سے انسیت ہے ، پیار ہے ۔۔ شاید اس لئے میں ان کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتا ۔قبرستان جانے کے لئے میں نے کوئی دن مخصوص نہیں کر رکھا اور نہ ہی میں قبروں یا مزاروں کا ماننے والا ہوں ۔۔۔ میں سیدھا اللہ سے مانگتا ہوں اور وہی میری مرادیں پورا کرتا ہے ۔
بات ہو رہی تھی قبرستان یعنی شہر خموشاں کی ۔۔۔ جہاں خموشی ہوتی ہے وہاں انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہے ۔اور اس سوچ میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے ۔اب آپ یہی دیکھیں بیت الخلا کی خاموشی میں بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن بیٹھے اور کچھ فلسفی ۔۔۔۔۔۔ ٹویٹر اور فیس بک اس کی زندہ مثال ہیں
ہمیں بھی کچھ نیا سوجھا ہے مگر ہمیں بیت الخلا کی خاموشی میں نہیں بلکہ قبرستان کی خموشی میں کچھ نیا سوجھا ہے ۔وہاں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اب بلاگنگ کو نیا رنگ دیا جائے یعنی تحریر کے ساتھ ساتھ اب آڈیو اور ویڈیو بلاگنگ کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے تو اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم نے قبرستان کے گورکن کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو کہ آپ کی نظر ۔۔۔انٹرویو دو حصوں پر محیط ہے پہلا حصہ تقریبا پندرہ منٹ اور دوسرا ڈیڑھ منٹ کا ہے ۔تو آئیے سنتے ہیں ۔۔۔
[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-001.mp3]
[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-002.mp3]
اتوار، 31 مارچ، 2013
پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں
شنید ہے کہ پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اچھی بات ہے زندگی میں کچھ شغل میلہ بھی تو ہونا چاہئے ۔اب یہ کیا کہ بم دھماکوں سے ہی ہم معصوم بچے اور بڑوں کو مرتا دیکھیں ۔اب دہشت گردی میں کچھ نیا پن بھی تو آنا چاہئے ۔۔ آٹھ دس بچوں کے گلے کٹیں ، کچھ عورتیں لہولہان ہوں اور مرد اپنے ٹوٹی ٹانگوں والے بچوں کو ہسپتال لئے لئے پھریں ۔
اب بہت ہوچکا ۔۔۔ میرا خیال ہے ارباب اختیار اور پاکستانی ٹی وی میڈیا کو ایسا سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے جو بسنت کو منانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔اگر کسی قاتل پتنگ کی ڈور سے کسی بچے کی گردن کٹ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔
اب بہت ہوچکا ۔۔۔ میرا خیال ہے ارباب اختیار اور پاکستانی ٹی وی میڈیا کو ایسا سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے جو بسنت کو منانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔اگر کسی قاتل پتنگ کی ڈور سے کسی بچے کی گردن کٹ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔
اتوار، 17 فروری، 2013
توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے
روکو روکو روکو ذرا ۔۔۔۔گاڑی روکو ۔۔۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔
آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔
آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔
پیر، 28 جنوری، 2013
اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد اور اردو بلاگرز
پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد مورخہ 26-27 جنوری 2013ء کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور پاکستان میں کیا گیا
سب سے پہلے تو اتنی اچھی کانفرنس کے انعقاد پر میری طرف سے اور تمام اردو بلاگرز کیمونٹی کی طرف سے محسن عباس کو خراج تحسین اور بہت مبارکباد
اچھی مینجمنٹ کی بدولت اس کانفرنس کو سال کے شروع کی بہترین کانفرنس کہا جا سکتا ہے
ایسی کانفرنس جو نظم ظبط کا اعلی ترین نمونہ تھی جس میں تمام اردو بلاگرز کو عزت و احترام دیا گیا
اس کانفرنس میں ناشتے اور کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا
لاہور شہر سے باہر والوں کی خصوصی نگہداشت اور ان کے آرام کا خیال رکھا گیا اور انہیں لاہور کے مقامات کی سیر بھی کروائی گئی
پچھلے چند سالوں میں اردو زبان نے انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا فائدہ جہاں اردو دانوں کو ہوا ہے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی سنجیدگی سے اس طرف دھیان دینا شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ جو بات کسی کو اس کی مادری زبان میں سمجھائی یا دماغ میں ڈالی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ۔سوچوں کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سوچوں کے انداز کو اپنا کر انہیں اپنا رنگ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔
میری نظر میں اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے
گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا والوں نے پاکستانی ٹی وی میڈیا کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔ان کا سد باب کرنا
تمام پاکستانی اردو بلاگرز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ایسے بلاگرز کی نشان دہی اور جانکاری جو انتہا پسند خیالات کے مالک ہیں
اردو بلاگرز کی سالوں میں کی گئی محنت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا
پروفیشنل صحافیوں کو بلاگنگ کی تربیت کے لئے اردو بلاگرز کی گئی کاوشوں سے استفادہ حاصل کروانا
خام مال کو اپنے لئے حاصل کرنا۔۔۔خام مال سے مراد ایسے اردو بلاگرز جن کے ذہن ابھی پختہ نہ ہوئے ہوں
خاص کر گاؤں ، دیہات یا کہ چھوٹے شہروں کے بلاگرز کو ترجیح دے کر ان کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے کام لینا
مصر میں بلاگرز کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اسی کے مطابق ان سے کام لینا ۔
اردو بلاگرز کو اپنے دئے گئے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا
بلتستان ، پختونخواہ سے بلاگرز تیار کرنا تاکہ وہ اپنی زبان میں اپنی قوم کی رہنمائی کر سکیں
[gallery ids="426,424,425,427,428,433,432,431,430,429,434,435,436,437,438,443,442,441,440,439,444,445,446,447,448,453,452,451,450,449,454,455,456,457,422,458,459,460,461,462,463,464,465,466,467,468,469,470,471,472,473,474,475,476"]
سب سے پہلے تو اتنی اچھی کانفرنس کے انعقاد پر میری طرف سے اور تمام اردو بلاگرز کیمونٹی کی طرف سے محسن عباس کو خراج تحسین اور بہت مبارکباد
اچھی مینجمنٹ کی بدولت اس کانفرنس کو سال کے شروع کی بہترین کانفرنس کہا جا سکتا ہے
ایسی کانفرنس جو نظم ظبط کا اعلی ترین نمونہ تھی جس میں تمام اردو بلاگرز کو عزت و احترام دیا گیا
اس کانفرنس میں ناشتے اور کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا
لاہور شہر سے باہر والوں کی خصوصی نگہداشت اور ان کے آرام کا خیال رکھا گیا اور انہیں لاہور کے مقامات کی سیر بھی کروائی گئی
پچھلے چند سالوں میں اردو زبان نے انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا فائدہ جہاں اردو دانوں کو ہوا ہے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی سنجیدگی سے اس طرف دھیان دینا شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ جو بات کسی کو اس کی مادری زبان میں سمجھائی یا دماغ میں ڈالی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ۔سوچوں کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سوچوں کے انداز کو اپنا کر انہیں اپنا رنگ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔
میری نظر میں اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے
گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا والوں نے پاکستانی ٹی وی میڈیا کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔ان کا سد باب کرنا
تمام پاکستانی اردو بلاگرز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ایسے بلاگرز کی نشان دہی اور جانکاری جو انتہا پسند خیالات کے مالک ہیں
اردو بلاگرز کی سالوں میں کی گئی محنت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا
پروفیشنل صحافیوں کو بلاگنگ کی تربیت کے لئے اردو بلاگرز کی گئی کاوشوں سے استفادہ حاصل کروانا
خام مال کو اپنے لئے حاصل کرنا۔۔۔خام مال سے مراد ایسے اردو بلاگرز جن کے ذہن ابھی پختہ نہ ہوئے ہوں
خاص کر گاؤں ، دیہات یا کہ چھوٹے شہروں کے بلاگرز کو ترجیح دے کر ان کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے کام لینا
مصر میں بلاگرز کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اسی کے مطابق ان سے کام لینا ۔
اردو بلاگرز کو اپنے دئے گئے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا
بلتستان ، پختونخواہ سے بلاگرز تیار کرنا تاکہ وہ اپنی زبان میں اپنی قوم کی رہنمائی کر سکیں
[gallery ids="426,424,425,427,428,433,432,431,430,429,434,435,436,437,438,443,442,441,440,439,444,445,446,447,448,453,452,451,450,449,454,455,456,457,422,458,459,460,461,462,463,464,465,466,467,468,469,470,471,472,473,474,475,476"]
اتوار، 16 دسمبر، 2012
محترم سید شاکرالقادری صاحب اور اشتیاق علی صاحب کے اعزاز میں لاہور میں تقریب پزیرائی کا انعقاد
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام کو صحیح سمت دکھانے کے لئے ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی کسی بھی تحریک ، انجمن یا کہ کسی محفل کو رواں دواں اور متحرک رکھنے کے لئے ایک اچھے ، باصلاحیت ، چاق و چوبند لیڈر کا ہونا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے ۔عاطف بٹ میں یہ تمام خوبیاں موجود ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر لاہور میں عاطف بٹ نہ ہوتا تو محفل کی سرگرمیاں لاہور میں ایسے ہی سونی ہوتیں جیسا کہ آج سے چھ ماہ پہلے تک تھیں۔میں عاطف بٹ کو سلام اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس کی محنت اور کاوشوں سے کم از کم لاہور میں اردو محفل اب کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔
میں اس کے ساتھ ساتھ ساجد بھائی کی خدمات کا معترف ہوں کہ وہ اپنی انتہائی خرابی صحت کے باوجود اردو محفل کے لئے انتھک محنت اور جدوجہد میں عاطف بٹ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔۔کبھی کبھی میں خود سے سوچتا ہوں کہ ان دونوں کو کیا ملتا ہے جو یہ یوں اپنا قیمتی وقت، پیسہ خرچ کئے جاتے ہیں ۔پھر سوچتا ہوں ، شاید کہ پیار اور جذباتیت کی انتہا ہے جو کہ انہیں اردو محفل سے ہے ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ساجد بھائی اور عاطف بھائی بارش میں بھیگتے ہوئے میرے والد صاحب کی تعزیت کے لئے میرے گھر پہنچے تھے ۔تعزیت کے بات بہت سی باتیں ہوئیں اور باتوں باتوں میں ہی عاطف بٹ نے محترم سید شاکرالقادری صاحب کا تذکرہ کر دیا کہ وہ آج کل لاہور میں موجود ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ لاہور میں بھی ان کے اور اشتیاق علی کے اعزاز میں ایک تقریب پزیرائی کا اہتمام کر دیا جائے ۔
میں نے اور ساجد بھائی نے کہا کہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے ۔ بحرحال عاطف بٹ نے اسی وقت محترم سید شاکرالقادری صاحب کو فون کیا اور ان سے ملنے کا کہہ کر مجھ سے رخصت ہو لئے ۔
آج جمعہ کی سہہ پہر کو عاطف بٹ صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ شام پانچ بجے کازمو پولیٹن کلب باغِ جناح میں محترم سید شاکرالقادری صاحب اور اشتیاق علی کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کے انعقاد کے انتظامات کو مکمل شکل دے دی گئی ہے بس آپ نے پہنچنا ہے ۔
میں اور میرا ایک دوست نیر احمد شکوہ تقریباً ساڑھے چار بجے گھر سے نکلے سڑکوں پر ٹریفک کے بے پناہ رش کی بدولت ہم کازمو کلب میں پندرہ منٹ لیٹ پہنچے ۔میں اپنے تئیں پیشمان سا ہو کر اندر داخل ہوا چاہتا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں ، چہار سو ہو کا عالم ہے ۔اردو محفل کا نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ۔
ایسے میں عاطف بٹ کا فون آ جاتا ہے ، پوچھتے ہیں کہاں ہیں آپ ، میں کہتا ہوں سرکار آپ کے قدموں میں ۔۔۔ کہنے لگے میں بس راستے میں ہوں ، وہاں میرے دوست حبیب چوہان صاحب ہوں گے ان سے مل لیں ۔
میں ہوں کہہ کر حبیب چوہان صاحب کو ڈھونڈتا ہوں ۔چوکیدار سے پتہ کرنے پر حبیب چوہان صاحب ٹہلتے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ خیر سلام دعا ہوئی ، بڑی محبت سے پیش آئے ، پیار سے ہاتھ پکڑ کر کلب کے اندر لے گئے اور نرم گرم صوفے پر جا بٹھایا۔
حبیب چوہان صاحب کا تعارف پوچھنے پر پتہ چلا موصوف صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور میں اپنا چینل کے سائے تلے کام کر رہے ہیں ۔باتوں باتوں میں میں کلب کے ماحول کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔اچھی اور پرسکون جگہ تھی ۔۔۔شرارت سوجھی ، چوہان صاحب سے پوچھا کہ چوہان صاحب یہاں کوئی پینے پلانے کو بھی کچھ ملے گا کہ نہیں ، کہنے لگے کیا مطلب ، میں نے کہا کہ اس کلب میں کوئی شراب وراب کا انتظام بھی ہے کہ نہیں ۔۔چوہان صاحب مجھے حیرت سے دیکھا کئے۔ابھی وہ محو حیرت ہی تھے کہ میں پوچھ بیٹھا کہ اچھا علیحدہ کمروں ومروں کا تو انتظام ہو گا نا یہاں ۔۔۔
اب چوہان صاحب شاید چڑ کر بولے بھائی یہ وہ والا کلب نہیں ہے ۔ یہ پاکستانی کلب ہے ۔یہاں یہ سب نہیں ہوتا ۔۔اتنا کہتے ہی چوہان صاحب اٹھ کر باہر کو چل دئے
تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ باہر سے حبیب چوہان صاحب کے ساتھ محترم سید شاکرالقادری صاحب ،اشتیاق علی صاحب،فرخ منظور صاحب اور شعبان نظامی صاحب کی آمد ہوتی ہے ۔ٹی وی لاؤنج میں سب سے تعارف حاصل ہوتا ہے ۔جس میں شاید محبت اور انسیت کا عنصر شامل ہونے کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو ایک دوسرے سے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ۔
کچھ دیر بعد ہم اٹھ کر کانفرنس روم میں چل دیتے ہیں جہاں ہمارے بیٹھتے ہی ساجد بھائی کی آمد ہوتی ہے ۔بعد آزاں حسن نظامی صاحب( پسر شاکرالقادری) ، احمد صابر سبہانی ، آصف بٹ ( صحافی ۔ اپنا چینل ) کی آمد بھی ہوتی ہے۔
تھوڑا سا تصویری سیشن ہوتا ہے ۔۔۔۔
عاطف بٹ صاحب اٹھ کر تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے پہلے اردو محفل کا تفصیلی تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محترم سید شاکرالقادری اور اشتیاق علی کے بارے تعریفی کلمات ادا کرتے ہوئے القلم تاج نستعلیق فونٹ کے بارے میں ان کی خدمات کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ۔
بعد ازاں عاطف بٹ صاحب میری طرف گھور کر دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے مجھے اردو محفل پر اور اردو بلاگر پر روشنی ڈالنے کا کہہ کر مجھ ناچیز کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ہم نے بھی جو الٹا سیدھا منہہ میں آیا کہہ ڈالا۔
اشتیاق علی صاحب کو دعوت خطاب دی گئی جنہوں نے محترم سید شاکرالقادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کو اپنی شاگردی میں قبول کیا اور ان سے اس عظیم کام میں مدد لی۔انہوں نے کہا کہ القلم تاج نستعلیق فونٹ بنانے سے پہلے میں اس بارے کچھ بھی نہیں جانتا تھا یہ صرف محترم سید شاکرالقادری کی مہربانی سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔
آخر میں محترم سید شاکرالقادری صاحب کو دعوت خطاب دی گئی ۔محترم سید شاکرالقادری صاحب نے ابتدا سے لے کر القلم تاج نستعلیق فونٹ بنانے تک کے مرحلے پر تفصیلاً روشنی ڈالی ۔تمام حاضرین نے ان کی کاوشوں پر خوب دل کھول کر داد دی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
آخری مرحلے میں اردو محفل کی جانب سے محترم سید شاکرالقادری صاحب کے شاگرد اشتیاق علی کو ایک ہدیہ دیا گیا جو کہ رقم کی صورت میں تھا جس کی مالیت میرے علم میں نہیں ، مگر میرے اندازے کے مطابق دس یا بیس ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے ۔اس ہدیہ کو پیش کرنے کے لئے نبیل نقوی کے دوست احمد صابر سبحانی صاحب سے درخواست کی گئی تاکہ نبیل نقوی کی کمی دور کی جاسکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم سید شاکرالقادری صاحب
اچھے اور انتہائی نفیس انسان ۔۔۔۔ مل کر خوشی محسوس ہوئی ۔۔میرے خیال میں ان کی محنت اور کاوشوں کی جتنی پزیرائی انہیں ملنی چاہئے شاید ہم لوگ ان کو دے نہ سکیں ۔اللہ انہیں اس کام کا اجر دے
اشتیاق علی قادری
اچھا اور محنتی انسان ۔۔۔ شاید اس بندے میں کوئی چیز ، کوئی لگن ہے جسے محترم سید شاکرالقادری صاحب نے محسوس کر لیا۔
حسن نظامی ( پسر شاکرالقادری ) ۔
اپنے والد محترم کی طرح نفیس انسان ۔۔۔۔ادب کرنے والا ، اپنے والد محترم کی تعریف پر اس کی آنکھوں کی خوبصورت چمک مجھے اس کی فرمانبرداری کا پتہ دیتی ہے
فرخ منظور
ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان جو انسانوں کو پرکھ کر اس پر بھروسہ کرنا پسند کرتا ہے ۔۔۔
شعبان نظامی
آنکھوں میں شرارت لئے سب کے چہرے پڑھنے والا ایک اچھا انسان
احمد صابر سبحانی
ایک اچھے انسان ، عاطف بٹ صاحب کے دوست ، فیصل بنک کے منیجر اور اردو محفل کے ایڈمن نبیل نقوی کے ہمسائے اور دوست
حبیب چوہان
اچھا انسان ، سینئر صحافی ۔۔۔ عاطف بٹ صاحب کا دوست ۔اتنے بہتریں انتظامات پر ہم سب ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آصف بٹ
سینئر صحافی ۔۔ اپنا ٹی وی کے لاہور کے نمائنگان میں شامل
[gallery ids="487,488,489,490,491,492,493,494,495,496,497,498,499,500,501,502,503,504,505,506,507,508,509,510,511,512,513,514,515,516,517,518,519,520,521,522,523,524,525,526,527,528,529,530,531,532,533,534,535,536,537,538,539,540,541,542,543,544,545,546,547,548,549,550,551,552,553,554,555,556,557,558,559,560,561,562,563,564,565,566,567,568,569,570,571,572,573,574,575,576,577,578,579,580,581,582,583,584,585,586,587,588,589,590,591,592,593,594,595,596"]
میں اس کے ساتھ ساتھ ساجد بھائی کی خدمات کا معترف ہوں کہ وہ اپنی انتہائی خرابی صحت کے باوجود اردو محفل کے لئے انتھک محنت اور جدوجہد میں عاطف بٹ کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔۔کبھی کبھی میں خود سے سوچتا ہوں کہ ان دونوں کو کیا ملتا ہے جو یہ یوں اپنا قیمتی وقت، پیسہ خرچ کئے جاتے ہیں ۔پھر سوچتا ہوں ، شاید کہ پیار اور جذباتیت کی انتہا ہے جو کہ انہیں اردو محفل سے ہے ۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ساجد بھائی اور عاطف بھائی بارش میں بھیگتے ہوئے میرے والد صاحب کی تعزیت کے لئے میرے گھر پہنچے تھے ۔تعزیت کے بات بہت سی باتیں ہوئیں اور باتوں باتوں میں ہی عاطف بٹ نے محترم سید شاکرالقادری صاحب کا تذکرہ کر دیا کہ وہ آج کل لاہور میں موجود ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ لاہور میں بھی ان کے اور اشتیاق علی کے اعزاز میں ایک تقریب پزیرائی کا اہتمام کر دیا جائے ۔
میں نے اور ساجد بھائی نے کہا کہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے ۔ بحرحال عاطف بٹ نے اسی وقت محترم سید شاکرالقادری صاحب کو فون کیا اور ان سے ملنے کا کہہ کر مجھ سے رخصت ہو لئے ۔
آج جمعہ کی سہہ پہر کو عاطف بٹ صاحب کا فون آیا اور کہنے لگے کہ شام پانچ بجے کازمو پولیٹن کلب باغِ جناح میں محترم سید شاکرالقادری صاحب اور اشتیاق علی کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کے انعقاد کے انتظامات کو مکمل شکل دے دی گئی ہے بس آپ نے پہنچنا ہے ۔
میں اور میرا ایک دوست نیر احمد شکوہ تقریباً ساڑھے چار بجے گھر سے نکلے سڑکوں پر ٹریفک کے بے پناہ رش کی بدولت ہم کازمو کلب میں پندرہ منٹ لیٹ پہنچے ۔میں اپنے تئیں پیشمان سا ہو کر اندر داخل ہوا چاہتا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں ، چہار سو ہو کا عالم ہے ۔اردو محفل کا نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ۔
ایسے میں عاطف بٹ کا فون آ جاتا ہے ، پوچھتے ہیں کہاں ہیں آپ ، میں کہتا ہوں سرکار آپ کے قدموں میں ۔۔۔ کہنے لگے میں بس راستے میں ہوں ، وہاں میرے دوست حبیب چوہان صاحب ہوں گے ان سے مل لیں ۔
میں ہوں کہہ کر حبیب چوہان صاحب کو ڈھونڈتا ہوں ۔چوکیدار سے پتہ کرنے پر حبیب چوہان صاحب ٹہلتے ہوئے مل جاتے ہیں ۔ خیر سلام دعا ہوئی ، بڑی محبت سے پیش آئے ، پیار سے ہاتھ پکڑ کر کلب کے اندر لے گئے اور نرم گرم صوفے پر جا بٹھایا۔
حبیب چوہان صاحب کا تعارف پوچھنے پر پتہ چلا موصوف صحافت سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور میں اپنا چینل کے سائے تلے کام کر رہے ہیں ۔باتوں باتوں میں میں کلب کے ماحول کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔اچھی اور پرسکون جگہ تھی ۔۔۔شرارت سوجھی ، چوہان صاحب سے پوچھا کہ چوہان صاحب یہاں کوئی پینے پلانے کو بھی کچھ ملے گا کہ نہیں ، کہنے لگے کیا مطلب ، میں نے کہا کہ اس کلب میں کوئی شراب وراب کا انتظام بھی ہے کہ نہیں ۔۔چوہان صاحب مجھے حیرت سے دیکھا کئے۔ابھی وہ محو حیرت ہی تھے کہ میں پوچھ بیٹھا کہ اچھا علیحدہ کمروں ومروں کا تو انتظام ہو گا نا یہاں ۔۔۔
اب چوہان صاحب شاید چڑ کر بولے بھائی یہ وہ والا کلب نہیں ہے ۔ یہ پاکستانی کلب ہے ۔یہاں یہ سب نہیں ہوتا ۔۔اتنا کہتے ہی چوہان صاحب اٹھ کر باہر کو چل دئے
تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ باہر سے حبیب چوہان صاحب کے ساتھ محترم سید شاکرالقادری صاحب ،اشتیاق علی صاحب،فرخ منظور صاحب اور شعبان نظامی صاحب کی آمد ہوتی ہے ۔ٹی وی لاؤنج میں سب سے تعارف حاصل ہوتا ہے ۔جس میں شاید محبت اور انسیت کا عنصر شامل ہونے کی وجہ سے ہم میں سے کسی کو ایک دوسرے سے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی ۔
کچھ دیر بعد ہم اٹھ کر کانفرنس روم میں چل دیتے ہیں جہاں ہمارے بیٹھتے ہی ساجد بھائی کی آمد ہوتی ہے ۔بعد آزاں حسن نظامی صاحب( پسر شاکرالقادری) ، احمد صابر سبہانی ، آصف بٹ ( صحافی ۔ اپنا چینل ) کی آمد بھی ہوتی ہے۔
تھوڑا سا تصویری سیشن ہوتا ہے ۔۔۔۔
عاطف بٹ صاحب اٹھ کر تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے پہلے اردو محفل کا تفصیلی تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ محترم سید شاکرالقادری اور اشتیاق علی کے بارے تعریفی کلمات ادا کرتے ہوئے القلم تاج نستعلیق فونٹ کے بارے میں ان کی خدمات کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں ۔
بعد ازاں عاطف بٹ صاحب میری طرف گھور کر دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے مجھے اردو محفل پر اور اردو بلاگر پر روشنی ڈالنے کا کہہ کر مجھ ناچیز کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ہم نے بھی جو الٹا سیدھا منہہ میں آیا کہہ ڈالا۔
اشتیاق علی صاحب کو دعوت خطاب دی گئی جنہوں نے محترم سید شاکرالقادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کو اپنی شاگردی میں قبول کیا اور ان سے اس عظیم کام میں مدد لی۔انہوں نے کہا کہ القلم تاج نستعلیق فونٹ بنانے سے پہلے میں اس بارے کچھ بھی نہیں جانتا تھا یہ صرف محترم سید شاکرالقادری کی مہربانی سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔
آخر میں محترم سید شاکرالقادری صاحب کو دعوت خطاب دی گئی ۔محترم سید شاکرالقادری صاحب نے ابتدا سے لے کر القلم تاج نستعلیق فونٹ بنانے تک کے مرحلے پر تفصیلاً روشنی ڈالی ۔تمام حاضرین نے ان کی کاوشوں پر خوب دل کھول کر داد دی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
آخری مرحلے میں اردو محفل کی جانب سے محترم سید شاکرالقادری صاحب کے شاگرد اشتیاق علی کو ایک ہدیہ دیا گیا جو کہ رقم کی صورت میں تھا جس کی مالیت میرے علم میں نہیں ، مگر میرے اندازے کے مطابق دس یا بیس ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے ۔اس ہدیہ کو پیش کرنے کے لئے نبیل نقوی کے دوست احمد صابر سبحانی صاحب سے درخواست کی گئی تاکہ نبیل نقوی کی کمی دور کی جاسکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم سید شاکرالقادری صاحب
اچھے اور انتہائی نفیس انسان ۔۔۔۔ مل کر خوشی محسوس ہوئی ۔۔میرے خیال میں ان کی محنت اور کاوشوں کی جتنی پزیرائی انہیں ملنی چاہئے شاید ہم لوگ ان کو دے نہ سکیں ۔اللہ انہیں اس کام کا اجر دے
اشتیاق علی قادری
اچھا اور محنتی انسان ۔۔۔ شاید اس بندے میں کوئی چیز ، کوئی لگن ہے جسے محترم سید شاکرالقادری صاحب نے محسوس کر لیا۔
حسن نظامی ( پسر شاکرالقادری ) ۔
اپنے والد محترم کی طرح نفیس انسان ۔۔۔۔ادب کرنے والا ، اپنے والد محترم کی تعریف پر اس کی آنکھوں کی خوبصورت چمک مجھے اس کی فرمانبرداری کا پتہ دیتی ہے
فرخ منظور
ایک اچھا اور سلجھا ہوا انسان جو انسانوں کو پرکھ کر اس پر بھروسہ کرنا پسند کرتا ہے ۔۔۔
شعبان نظامی
آنکھوں میں شرارت لئے سب کے چہرے پڑھنے والا ایک اچھا انسان
احمد صابر سبحانی
ایک اچھے انسان ، عاطف بٹ صاحب کے دوست ، فیصل بنک کے منیجر اور اردو محفل کے ایڈمن نبیل نقوی کے ہمسائے اور دوست
حبیب چوہان
اچھا انسان ، سینئر صحافی ۔۔۔ عاطف بٹ صاحب کا دوست ۔اتنے بہتریں انتظامات پر ہم سب ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آصف بٹ
سینئر صحافی ۔۔ اپنا ٹی وی کے لاہور کے نمائنگان میں شامل
[gallery ids="487,488,489,490,491,492,493,494,495,496,497,498,499,500,501,502,503,504,505,506,507,508,509,510,511,512,513,514,515,516,517,518,519,520,521,522,523,524,525,526,527,528,529,530,531,532,533,534,535,536,537,538,539,540,541,542,543,544,545,546,547,548,549,550,551,552,553,554,555,556,557,558,559,560,561,562,563,564,565,566,567,568,569,570,571,572,573,574,575,576,577,578,579,580,581,582,583,584,585,586,587,588,589,590,591,592,593,594,595,596"]
پیر، 26 نومبر، 2012
اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام
میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔اصل میں میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں وقت سے پہنچ جاؤں اور اس وقت سے پہنچنے پر مجھے بہت دفعہ خفت بھی اٹھانا پڑی ہے ۔کئی بار تو شادی والی جگہ پر میں وقت سے پہلے پہنچ کر کرسیاں لگانے والوں کے ساتھ کرسیاں بھی لگا چکا ہوں ۔یار دوست یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شاید میں محبوبہ کی شادی میں شامل ہونے کے لئے کرسیاں لگانے کی آڑ لے رہا ہوں ۔
محفل کی عید ملن پارٹی کا یہ بلاوا دوسری بار تھا ۔پہلی بار جب میں اپنے سازو سامان کے ساتھ انارکلی پہنچا ( سازو سامان کا مطلب گانا بجانے کا سازو سامان نہیں تھا ، بلکہ لائیو کوریج کا سازوسامان) تو نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات ۔۔۔ خیر فون گھمایا اپنے عاطف بٹ صاحب کو جن کو میں نے کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔غنودگی بھری آواز سنائی دی کہ بس میں ابھی آیا ۔ صبر اور انتظار کیا ، اس دوران محفل پر پیغام بھی بھیجا کہ یہاں کوئی نہیں ہے جس کے جواب میں حسیب نذیر صاحب کا جوابی پیغام پڑھا کہ اچھا ہوا میں گھر سے ہی نہیں چلا ۔
خیر گرمی بہت تھی مگر اس گرمی کو دماغ سے دور رکھا اور ٹھنڈے پانی کے گلاس سے گزارا کیا۔کچھ ہی دیر بعد محترم عاطف بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔حیرت اور خوشی ہوئی کہ درجنوں انسانوں کے بیچ یہ مجھے پہچان کر سیدھے میرے پاس پہنچے۔حالانکہ میرے ساتھ میرا ایک اسسٹنٹ بھی تھا مگر یہ بھی ایسے کایاں تھے کہ اس کو پردیسی نہ جانا۔شاید اس لئے کہ صحافی تھے اور اچھے صحافی ویسے بھی ماشااللہ کافی ذہین ہوتے ہیں۔ تھوڑی باتیں ہوئیں ، بٹ صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور کچھ پرانے لوگوں کی باتیں کیں جنہیں ہم بھی جانتے تھے ۔مجھ سے بٹ صاحب نے دو ایک بار میرے بارے پوچھا تو میں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دیا ۔۔۔ بٹ صاحب سمجھ گئے کہ میں بتانا نہیں چاہتا اس لئے چپ ہو رہے ۔۔مگر آفرین ہے عاطف بٹ صاحب پر کہ جبیں پر شکن تک نہیں آنے دی ۔ بس ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا ۔اسی درمیان بٹ صاحب باری باری سب کو فون ملاتے رہے مگر کوئی آنے کی ہامی ہی نہیں بھر رہا تھا۔آخر میں محترم ساجد صاحب نے کے ہاں سے ان کے نہانے کا پتہ چلا ۔۔۔ ۔۔۔ اسی اثنا میں سہہ پہر کے تقریبا تین بج چکے تھے ۔گرمی تھی اور پیاس بھی شدید ہو چلی تھی ۔بٹ صاحب نے جوس منگوایا اسے پینے کے بعد بٹ صاحب سے اجازت طلب کی ، انہوں نے ہنستے ہوئے اجازت دی تو ان سے رخصت ہو کر گھر آکر ہم نے کھانے کی فرمائش کر دی ۔۔
اب یہاں دیکھئے کہ جب ہم گھر سے چلے تو کہہ کر گئے تھے کہ ہمارا کھانا مت پکائیے گا ۔۔ اب جو گھر بغیر کھانے کے پہنچے تو بتائیے کیا حال ہوا ہو گا ۔۔اور میرے جیسے بندے کا حال جو ویسے بھی جورو کا غلام ہو ۔۔۔ ۔
میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔۔اب مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں دیر سے کیوں پہنچ رہا ہوں ۔چاروں طرف نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ انارکلی حافظ جوس کارنر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کان سے موبائل لگائے ٹہلے جا رہے ہیں ۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ہو نہ ہو یہ ساجد صاحب ہی ہیں کیونکہ ساجد صاحب کی تصویر میں عید ملن پارٹی کے دھاگے میں دیکھ چکا تھا۔
ساجد صاھب کے قریب جا کے میں نے سلام دے مارا اور آہستہ سے کہا کہ میں پردیسی ہوں ۔۔۔ جواب دینے کے بعد خوب گلے سے لگا کر بھنچتے ہوئے ساجد صاحب کہنے لگے کیا حال ہیں جناب ،،، بس ایک منٹ میں ذرا یہ کتاب خرید لوں ۔۔۔ اسی اثنا میں ساجد صاحب نے امریکی سیاسیات پر ایک عدد کتاب خریدی اور پاس آ ٹھرے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ بس سب پہنچنے ہی والے ہیں ۔۔اور قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے کہا ہے کہ ہم بس نزدیک ہی ہیں بس ابھی آتے ہیں ۔میں اور ساجد صاحب ابھی حافظ جوس کارنر کی ٹیبل کی جانب رواں دواں ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مولانا صاحب اور ان کے ساتھ چھوٹے سے خوبصورت نوجوان لڑکے ہماری طرف لپکے چلے آتے ہیں ۔ساجد صاحب نے تھوڑی دور سے ان کو دیکھ کر کہا کہ لیں جناب قادری صاحب بھی آگئے ۔میں نے ان کو غور سے دیکھا اور ساجد صاحب سے آہستہ سے کہا کہ یارا یہ تو مولوی لوگ ہیں اور مجھے مولویوں سے ویسے ہی بڑا ڈر لگتا ہے ۔۔ساجد صاحب میری بات سن کر ہنس پڑے۔
قریب آتے ہی قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے گرمجوشی سے سلام کیا ۔ہم سب چلتے ہوئے حافظ جوس کارنر کی ایک ٹیبل پر براجمان ہوگئے ۔اس سے پہلے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی خیر خبر لیں ۔۔ ایک ویٹر جن کی طرح حاضر ہو گیا ۔۔۔ کیا لیں گے جی ۔۔۔ اب اس کو ٹہلایا کہ ابھی ہمارے مہمان آنے ہیں ۔وہ بھی سمجھ گیا ہو گا کہ یہ بس ایویں ہی ہیں ۔۔کسی نہ کسی کا انتظار کریں گے اور چل دیویں گے
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے اپنا اپنا تعارف کروایا جس پر میں نے حسیب نذیر کو کہا کہ یارا محفل میں تو آپ کافی فنکار لگتے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ آپ تو ہم سب میں چھوٹے ہیں۔حسیب نذیر صاحب ہنس دئے ۔
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے بتایا کہ بس بابا جی بھی پہنچنے والے ہیں ۔اسی دوران مجھے عاطف بٹ صاحب کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ساجد صاحب سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بس آیا ہی چاہتے ہیں۔۔۔ اتفاق دیکھئے کہ ادھر عاطف صاحب کی آمد ہوتی ہے اور بابا جی بھی جن کی طرح آ دھمکتے ہیں ۔۔ بابا جی کو دیکھا تو سوچا کہیں میرے بابا کہنے سے اس سمارٹ سے لڑکے کی توہین ہی نہ ہو ۔ مگر بابا جی تھے کہ انہیں بابا جی کہنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
سب پہنچ چکے تھے ۔ ہنسی مذاق شروع ہو چکا تھا ، لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم سب پہلی بار مل رہے ہیں ۔انجان لوگوں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے سے ملیں اور اجنبیت کا احساس بھی نہ ہو ۔۔حیرت ہے نا ۔بس کچھ ایسا ہی تھا اور تصاویر اس کی گواہ ہیں ۔۔۔
عاطف بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہنس مکھ اور ذہین انسان اور درد دل رکھنے والا ۔۔۔ ۔ زندگی میں میں نے کم لوگوں کو ایسا دیکھا ہے
ساجد بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ذہین انسان ۔۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کر کے منوا سکتے ہیں ۔۔۔ اچھے انسان ہیں
قادری صاحب ۔۔۔ ۔ ایسے مذہبی انسان جو علم رکھتے ہوئے بھی کم گو ہیں ۔۔ بغیر وجہ کہ میں نے انہیں بولتے نہیں دیکھا ۔۔۔ دوسرے مولویوں کے برعکس انہوں نے کھانا بھی کم مقدار میں اور تہذیب یافتہ انداز میں کھایا۔اچھے انسان لگے
حسیب نذیر ۔۔۔ ۔۔ذہین ، فطین اور سوچ کر بولنے والا نوجوان ۔۔۔ آنکھوں کی چمک کچھ کر گذرنے کا پتہ دیتی ہے ۔۔۔ شریف اور خوبصورت نوجوان ہے ۔۔۔ دیکھ کر اچھا لگا
بابا جی سرکار ۔۔۔ ۔ بغیر داڑھی کے مولوی ۔۔۔ بزرگوں کی عزت کرنے اور ان کو ماننے والا ۔۔۔ اچھا انسان ہے
[gallery ids="602,603,604,605,606,607,608,609,610,611,612,613,614,615,616,617,618,619,620,621,622,623,624,625,626,627,628,629,630,631,632,633,634,635,636,637,638,639,640"]
محفل کی عید ملن پارٹی کا یہ بلاوا دوسری بار تھا ۔پہلی بار جب میں اپنے سازو سامان کے ساتھ انارکلی پہنچا ( سازو سامان کا مطلب گانا بجانے کا سازو سامان نہیں تھا ، بلکہ لائیو کوریج کا سازوسامان) تو نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات ۔۔۔ خیر فون گھمایا اپنے عاطف بٹ صاحب کو جن کو میں نے کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔غنودگی بھری آواز سنائی دی کہ بس میں ابھی آیا ۔ صبر اور انتظار کیا ، اس دوران محفل پر پیغام بھی بھیجا کہ یہاں کوئی نہیں ہے جس کے جواب میں حسیب نذیر صاحب کا جوابی پیغام پڑھا کہ اچھا ہوا میں گھر سے ہی نہیں چلا ۔
خیر گرمی بہت تھی مگر اس گرمی کو دماغ سے دور رکھا اور ٹھنڈے پانی کے گلاس سے گزارا کیا۔کچھ ہی دیر بعد محترم عاطف بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔حیرت اور خوشی ہوئی کہ درجنوں انسانوں کے بیچ یہ مجھے پہچان کر سیدھے میرے پاس پہنچے۔حالانکہ میرے ساتھ میرا ایک اسسٹنٹ بھی تھا مگر یہ بھی ایسے کایاں تھے کہ اس کو پردیسی نہ جانا۔شاید اس لئے کہ صحافی تھے اور اچھے صحافی ویسے بھی ماشااللہ کافی ذہین ہوتے ہیں۔ تھوڑی باتیں ہوئیں ، بٹ صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور کچھ پرانے لوگوں کی باتیں کیں جنہیں ہم بھی جانتے تھے ۔مجھ سے بٹ صاحب نے دو ایک بار میرے بارے پوچھا تو میں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دیا ۔۔۔ بٹ صاحب سمجھ گئے کہ میں بتانا نہیں چاہتا اس لئے چپ ہو رہے ۔۔مگر آفرین ہے عاطف بٹ صاحب پر کہ جبیں پر شکن تک نہیں آنے دی ۔ بس ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا ۔اسی درمیان بٹ صاحب باری باری سب کو فون ملاتے رہے مگر کوئی آنے کی ہامی ہی نہیں بھر رہا تھا۔آخر میں محترم ساجد صاحب نے کے ہاں سے ان کے نہانے کا پتہ چلا ۔۔۔ ۔۔۔ اسی اثنا میں سہہ پہر کے تقریبا تین بج چکے تھے ۔گرمی تھی اور پیاس بھی شدید ہو چلی تھی ۔بٹ صاحب نے جوس منگوایا اسے پینے کے بعد بٹ صاحب سے اجازت طلب کی ، انہوں نے ہنستے ہوئے اجازت دی تو ان سے رخصت ہو کر گھر آکر ہم نے کھانے کی فرمائش کر دی ۔۔
اب یہاں دیکھئے کہ جب ہم گھر سے چلے تو کہہ کر گئے تھے کہ ہمارا کھانا مت پکائیے گا ۔۔ اب جو گھر بغیر کھانے کے پہنچے تو بتائیے کیا حال ہوا ہو گا ۔۔اور میرے جیسے بندے کا حال جو ویسے بھی جورو کا غلام ہو ۔۔۔ ۔
میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔۔اب مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں دیر سے کیوں پہنچ رہا ہوں ۔چاروں طرف نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ انارکلی حافظ جوس کارنر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کان سے موبائل لگائے ٹہلے جا رہے ہیں ۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ہو نہ ہو یہ ساجد صاحب ہی ہیں کیونکہ ساجد صاحب کی تصویر میں عید ملن پارٹی کے دھاگے میں دیکھ چکا تھا۔
ساجد صاھب کے قریب جا کے میں نے سلام دے مارا اور آہستہ سے کہا کہ میں پردیسی ہوں ۔۔۔ جواب دینے کے بعد خوب گلے سے لگا کر بھنچتے ہوئے ساجد صاحب کہنے لگے کیا حال ہیں جناب ،،، بس ایک منٹ میں ذرا یہ کتاب خرید لوں ۔۔۔ اسی اثنا میں ساجد صاحب نے امریکی سیاسیات پر ایک عدد کتاب خریدی اور پاس آ ٹھرے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ بس سب پہنچنے ہی والے ہیں ۔۔اور قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے کہا ہے کہ ہم بس نزدیک ہی ہیں بس ابھی آتے ہیں ۔میں اور ساجد صاحب ابھی حافظ جوس کارنر کی ٹیبل کی جانب رواں دواں ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مولانا صاحب اور ان کے ساتھ چھوٹے سے خوبصورت نوجوان لڑکے ہماری طرف لپکے چلے آتے ہیں ۔ساجد صاحب نے تھوڑی دور سے ان کو دیکھ کر کہا کہ لیں جناب قادری صاحب بھی آگئے ۔میں نے ان کو غور سے دیکھا اور ساجد صاحب سے آہستہ سے کہا کہ یارا یہ تو مولوی لوگ ہیں اور مجھے مولویوں سے ویسے ہی بڑا ڈر لگتا ہے ۔۔ساجد صاحب میری بات سن کر ہنس پڑے۔
قریب آتے ہی قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے گرمجوشی سے سلام کیا ۔ہم سب چلتے ہوئے حافظ جوس کارنر کی ایک ٹیبل پر براجمان ہوگئے ۔اس سے پہلے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی خیر خبر لیں ۔۔ ایک ویٹر جن کی طرح حاضر ہو گیا ۔۔۔ کیا لیں گے جی ۔۔۔ اب اس کو ٹہلایا کہ ابھی ہمارے مہمان آنے ہیں ۔وہ بھی سمجھ گیا ہو گا کہ یہ بس ایویں ہی ہیں ۔۔کسی نہ کسی کا انتظار کریں گے اور چل دیویں گے
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے اپنا اپنا تعارف کروایا جس پر میں نے حسیب نذیر کو کہا کہ یارا محفل میں تو آپ کافی فنکار لگتے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ آپ تو ہم سب میں چھوٹے ہیں۔حسیب نذیر صاحب ہنس دئے ۔
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے بتایا کہ بس بابا جی بھی پہنچنے والے ہیں ۔اسی دوران مجھے عاطف بٹ صاحب کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ساجد صاحب سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بس آیا ہی چاہتے ہیں۔۔۔ اتفاق دیکھئے کہ ادھر عاطف صاحب کی آمد ہوتی ہے اور بابا جی بھی جن کی طرح آ دھمکتے ہیں ۔۔ بابا جی کو دیکھا تو سوچا کہیں میرے بابا کہنے سے اس سمارٹ سے لڑکے کی توہین ہی نہ ہو ۔ مگر بابا جی تھے کہ انہیں بابا جی کہنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
سب پہنچ چکے تھے ۔ ہنسی مذاق شروع ہو چکا تھا ، لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم سب پہلی بار مل رہے ہیں ۔انجان لوگوں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے سے ملیں اور اجنبیت کا احساس بھی نہ ہو ۔۔حیرت ہے نا ۔بس کچھ ایسا ہی تھا اور تصاویر اس کی گواہ ہیں ۔۔۔
عاطف بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہنس مکھ اور ذہین انسان اور درد دل رکھنے والا ۔۔۔ ۔ زندگی میں میں نے کم لوگوں کو ایسا دیکھا ہے
ساجد بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ذہین انسان ۔۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کر کے منوا سکتے ہیں ۔۔۔ اچھے انسان ہیں
قادری صاحب ۔۔۔ ۔ ایسے مذہبی انسان جو علم رکھتے ہوئے بھی کم گو ہیں ۔۔ بغیر وجہ کہ میں نے انہیں بولتے نہیں دیکھا ۔۔۔ دوسرے مولویوں کے برعکس انہوں نے کھانا بھی کم مقدار میں اور تہذیب یافتہ انداز میں کھایا۔اچھے انسان لگے
حسیب نذیر ۔۔۔ ۔۔ذہین ، فطین اور سوچ کر بولنے والا نوجوان ۔۔۔ آنکھوں کی چمک کچھ کر گذرنے کا پتہ دیتی ہے ۔۔۔ شریف اور خوبصورت نوجوان ہے ۔۔۔ دیکھ کر اچھا لگا
بابا جی سرکار ۔۔۔ ۔ بغیر داڑھی کے مولوی ۔۔۔ بزرگوں کی عزت کرنے اور ان کو ماننے والا ۔۔۔ اچھا انسان ہے
[gallery ids="602,603,604,605,606,607,608,609,610,611,612,613,614,615,616,617,618,619,620,621,622,623,624,625,626,627,628,629,630,631,632,633,634,635,636,637,638,639,640"]
ہفتہ، 4 جون، 2011
ذہنی کرپشن کو کوئی کیا کہے
میو ہسپتال لاہور شہر میں واقع ایک بڑا ہسپتال ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس ہسپتال کا شمار ایشیا کے بڑے اور مشہور ہسپتالوں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔اور ہمارے پاکستان کا یہ بھی اصول ہے کہ جو چیز ، جگہ جتنی بڑی ہوگی اس میں کرپشن کے مواقع بھی اتنے ہی ہوں گے ۔خالی خولی کرپشن ہو تو چلو گزارہ بھی کیا جاسکتا ہے مگر ذہنی کرپشن کو کوئی کیا کہے۔
ڈاکٹری پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اس مقدس پیشے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ڈاکٹروں کو آپ کیا کہیں گے ؟
یہ غالبا 1988 کا دور تھا ، مہینے کا کچھ یاد نہیں ، میں حسب معمول اپنی رات کی ڈیوٹی پر میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھا۔ہمارے ساتھ ہمارا ایم او ( میڈیکل آفیسر) ڈاکٹر حفیظ الرحمن جو شکل سے انتہائی شریف آدمی دکھائی دیتا تھا موجود تھا۔ہماری ڈیوٹی رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک 12 گھنٹے پر محیط ہوتی تھی ۔اور رات 1 بجے کے بعد ایمرجنسی میں عموما رش کم ہو جایا کرتا تھا۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی روزانہ یہ روٹین ہوتی تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ہماری سب کی ڈیوٹی ایمرجنسی وارڈ کے باہر ( سی او ڈی ) میں ہوتی تھی جہاں پولیس کیس ، یعنی حادثات ، قتل وغیرہ کے کیس آیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ہاں جو میڈیکل آفیسر یعنی ( ایم او) ہوتا تھا وہ تمام مریضوں کو ایک نظر دیکھ کر اسے سرجیکل یا میڈیل میں ریفر کر دیا کرتا تھا۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی عموما روزانہ کی یہ عادت تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔۔اور اسی علاج کے بہانے وہ لڑکی کے سینے پر اسٹتھیو اسکوپ ( عام آدمی اسے ٹوٹیاں سمجھ لیں جس سے سینے اور دل کا چیک اپ کیا جاتا ہے) لگا کر دیر تک اسے ہاتھوں سے ٹٹول کر مزے لیا کرتا تھا۔اس کی اس قبیح حرکت سے بہت سی لڑکیاں رونے لگتی تھیں ۔بیچارے ماں باپ یہی سمجھتے تھے کہ ان کی لڑکی تکلیف کی وجہ سے رو رہی ہے ۔ان کو کیا پتہ ہوتا تھا کہ یہ ڈاکٹر جو ان کی بچی کا علاج کر رہا ہے یہ ڈاکٹر کے روپ میں درندہ ہے۔ہم نے بارہا ڈاکٹر حفیظ الرحمن کو اس کی حرکتوں سے منع بھی کیا تھا اور بارہا شرم بھی دلائی تھی مگر اس کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی ۔
آج ہم سب نے ٹھان لیا تھا کہ آج اگر اس نے ایسی کوئی حرکت کی تو اس کا کوئی نہ کوئی سدباب کیا جائے گا۔اتفاق دیکھئے کہ ایک خوبصورت لڑکی پیٹ درد کی وجہ سے رات تقریبا ڈیڑھ بجے اپنی والدہ اور نوجوان بھائی کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئی میں اس وقت پرچی والے کے پاس ہی بیٹھا چائے پی رہا تھا میں نے پرچی والے کو اشارہ کیا کہ اس کی پرچی بنائو اور اسے ڈاکٹر حفیظ الرحمن کے پاس بھیج دو ۔ دوسری جانب میں نے اوپر لیباٹری ٹیکنیشن کو فون کر دیا کہ نیچے آ جائو اور باہری گیٹ کے پاس کھڑے ہو جائو۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے حسب معمول اس لڑکی کو اپنے ساتھ والے بیڈ پر لٹا کر قبیح حرکتیں شروع کر دیں ۔وہ لڑکی بھی کئی انتہائی شریف تھی اس نے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا ۔ میں نے فورا لیبارٹری ٹیکنیشن کو اشارہ کیا ، اس نے اس کے نوجوان بھائی کو اشارے سے بلا کر اسے ڈاکٹر کے بارے میں بتایا اور غائب ہو گیا۔لڑکی کے بھائی کا یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر اس کی بہن کے ساتھ ایسی حرکتیں کر رہا ہے اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، مریضوں کا اسٹول اٹھا کر ڈاکٹر کو دے مارا اور لگا گالیاں نکالنے ۔۔۔لڑکے نے فوری طور پر اپنی بہن اور ماں کو وہاں سے لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔۔ہم نے سوچا کہ یارا یہ تو کچھ نہ ہوا مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ساتھ ہی گوالمنڈی سے وہ بہت سے لڑکے لے کر دوبارہ آ دھمکا اور لگا ڈاکٹر کو مارنے۔۔جب وہ ڈاکٹر حفیظ کو کافی مار چکا تو اب ہمیں ڈاکٹر کو بچانے کی فکر ہوئی ۔۔بحرحال قصہ مختصر ڈاکٹر کو کسی نہ کسی طرح بچا کر وہاں سے بھگا دیا گیا اور صبح لڑکے کی درخواست پر سیکرٹری ہیلتھ نے اسے معطل کر دیا۔۔۔بعد میں سنا تھا کہ وہ بحال ہو گیا تھا۔۔مگر اس دن کے بعد سے آج تک میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی
ڈاکٹری پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے اس مقدس پیشے کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ڈاکٹروں کو آپ کیا کہیں گے ؟
یہ غالبا 1988 کا دور تھا ، مہینے کا کچھ یاد نہیں ، میں حسب معمول اپنی رات کی ڈیوٹی پر میو ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تھا۔ہمارے ساتھ ہمارا ایم او ( میڈیکل آفیسر) ڈاکٹر حفیظ الرحمن جو شکل سے انتہائی شریف آدمی دکھائی دیتا تھا موجود تھا۔ہماری ڈیوٹی رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک 12 گھنٹے پر محیط ہوتی تھی ۔اور رات 1 بجے کے بعد ایمرجنسی میں عموما رش کم ہو جایا کرتا تھا۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی روزانہ یہ روٹین ہوتی تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ہماری سب کی ڈیوٹی ایمرجنسی وارڈ کے باہر ( سی او ڈی ) میں ہوتی تھی جہاں پولیس کیس ، یعنی حادثات ، قتل وغیرہ کے کیس آیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ہاں جو میڈیکل آفیسر یعنی ( ایم او) ہوتا تھا وہ تمام مریضوں کو ایک نظر دیکھ کر اسے سرجیکل یا میڈیل میں ریفر کر دیا کرتا تھا۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی عموما روزانہ کی یہ عادت تھی کہ جب ایمرجنسی میں رش کم ہو جایا کرتا تھا تو کسی نہ کسی نوجوان خوبصورت لڑکی کو جو بیچاری اپنی بیماری کے باعث وہاں اپنے ماں باپ یا بھائی کے ساتھ آتی تھی ، اپنے قریب والے بیڈ پر لٹا کر اس کا علاج خود کیا کرتا تھا۔۔اور اسی علاج کے بہانے وہ لڑکی کے سینے پر اسٹتھیو اسکوپ ( عام آدمی اسے ٹوٹیاں سمجھ لیں جس سے سینے اور دل کا چیک اپ کیا جاتا ہے) لگا کر دیر تک اسے ہاتھوں سے ٹٹول کر مزے لیا کرتا تھا۔اس کی اس قبیح حرکت سے بہت سی لڑکیاں رونے لگتی تھیں ۔بیچارے ماں باپ یہی سمجھتے تھے کہ ان کی لڑکی تکلیف کی وجہ سے رو رہی ہے ۔ان کو کیا پتہ ہوتا تھا کہ یہ ڈاکٹر جو ان کی بچی کا علاج کر رہا ہے یہ ڈاکٹر کے روپ میں درندہ ہے۔ہم نے بارہا ڈاکٹر حفیظ الرحمن کو اس کی حرکتوں سے منع بھی کیا تھا اور بارہا شرم بھی دلائی تھی مگر اس کے کان پر جوں نہ رینگتی تھی ۔
آج ہم سب نے ٹھان لیا تھا کہ آج اگر اس نے ایسی کوئی حرکت کی تو اس کا کوئی نہ کوئی سدباب کیا جائے گا۔اتفاق دیکھئے کہ ایک خوبصورت لڑکی پیٹ درد کی وجہ سے رات تقریبا ڈیڑھ بجے اپنی والدہ اور نوجوان بھائی کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوئی میں اس وقت پرچی والے کے پاس ہی بیٹھا چائے پی رہا تھا میں نے پرچی والے کو اشارہ کیا کہ اس کی پرچی بنائو اور اسے ڈاکٹر حفیظ الرحمن کے پاس بھیج دو ۔ دوسری جانب میں نے اوپر لیباٹری ٹیکنیشن کو فون کر دیا کہ نیچے آ جائو اور باہری گیٹ کے پاس کھڑے ہو جائو۔ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے حسب معمول اس لڑکی کو اپنے ساتھ والے بیڈ پر لٹا کر قبیح حرکتیں شروع کر دیں ۔وہ لڑکی بھی کئی انتہائی شریف تھی اس نے اونچا اونچا رونا شروع کر دیا ۔ میں نے فورا لیبارٹری ٹیکنیشن کو اشارہ کیا ، اس نے اس کے نوجوان بھائی کو اشارے سے بلا کر اسے ڈاکٹر کے بارے میں بتایا اور غائب ہو گیا۔لڑکی کے بھائی کا یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر اس کی بہن کے ساتھ ایسی حرکتیں کر رہا ہے اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، مریضوں کا اسٹول اٹھا کر ڈاکٹر کو دے مارا اور لگا گالیاں نکالنے ۔۔۔لڑکے نے فوری طور پر اپنی بہن اور ماں کو وہاں سے لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔۔ہم نے سوچا کہ یارا یہ تو کچھ نہ ہوا مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتے ہیں کہ ساتھ ہی گوالمنڈی سے وہ بہت سے لڑکے لے کر دوبارہ آ دھمکا اور لگا ڈاکٹر کو مارنے۔۔جب وہ ڈاکٹر حفیظ کو کافی مار چکا تو اب ہمیں ڈاکٹر کو بچانے کی فکر ہوئی ۔۔بحرحال قصہ مختصر ڈاکٹر کو کسی نہ کسی طرح بچا کر وہاں سے بھگا دیا گیا اور صبح لڑکے کی درخواست پر سیکرٹری ہیلتھ نے اسے معطل کر دیا۔۔۔بعد میں سنا تھا کہ وہ بحال ہو گیا تھا۔۔مگر اس دن کے بعد سے آج تک میری اس سے ملاقات نہیں ہوئی
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
Featured Post
جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...

-
یہ تین عدد خصوصی کتابیں میرے کہنے پر اردو ہوم کی سائٹ پر ڈالی گئی ہیں۔اصل میں ، میں جب بھی اپنے اآج کل کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھتا ...
-
توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے، خدا جانے توں ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے، خدا جانے خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سکدا چمن آب...
-
میرا یہ مضمون آپ اردو نیوز پر بھی پڑھ سکتے ہیں جب الیکشن ٢٠٠٨ کی بازگشت شروع ہوئی تھی تو ساتھ ہی میاں نواز شریف کی آمد کا بگل بھی بجنا شروع...