Chawlin لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Chawlin لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 9 اکتوبر، 2013

پیشانی پر رکھا پردیسی نام تبدیل کر دیا گیا

محترم قارئین کرام !!!! بلاگ کی پیشانی پر رکھا '' پردیسی بلاگ '' کا نام تبدیل کر کے پرانا نام '' شیخو بلاگ '' رکھ دیا گیا ہے ۔ اگر کسی صاحب کو پرانے نام سے کچھ لینا دینا ہو تو اسی نئے نام سے رابطہ کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے ۔۔۔


جمعہ، 1 فروری، 2013

کچھ تحریر بتاں چند حسینوں کے خطوط

میں اپنے تمام محترم دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ سرور کی تبدیلی کے دوران بلاگ کا کچھ مواد جن میں چند ایک تحریریں اور کچھ تحریروں کے تبصرے ضائع ہو گئے ہیں ۔جن کا مجھے ازحد افسوس ہے ۔
ویسے بڑے بوڑھوں نے جو بھی مثالیں بنائیں وہ ایویں ہی نہیں ہیں جیسے ایک یہ مثال جو ہم پر اس وقت صادق آ رہی ہے ۔۔۔ یعنی کہ ،
اناڑی کا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کا نقصان




جمعہ، 28 دسمبر، 2012

اپنے کئے پر پانی بہا کر جائیں

یہ تو لکھی پڑھی اور مشاہدے کی بات ہے کہ ہر انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے اور یہ بھی ہے کہ فطرت کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنی فطرتی چیزوں سے فرار بھی ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ رفع حاجت کا ہونا وغیرہ

رفع حاجت ایک خوبصورت لفظ ہے ۔اس کے سننے سے انسان کو غلاظت کا کم احساس ہوتا ہے۔اگر یہی ہم رفع حاجت کو لیٹرین کہیں تو ذرا تھوڑا زیادہ غلاظت کا احساس ہو گا۔اور اگر یہی ہم اسے پاخانہ کہہ کر پکاریں تو غلاظت کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے ۔اور اگر اس سے تھوڑا اور آگے بڑھ جائیں یعنی ہم رفع حاجت کو ٹٹی کہہ دیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی بہت غلیظ شے کا نام لے لیا۔۔۔بلکہ ٹٹی کہنے کے ساتھ ساتھ انسان کا منہہ بھی برا سا بن جاتا ہے۔اور اگر یہی کوئی پنڈ کا بچہ سارے شہری مہمانوں کے بیچ اُٹھ کر کہہ دے کہ امی مینوں ٹٹی آئی اے ( امی مجھے لیٹرین آئی ہے ) تو سب کے منہہ ایسے بن جائیں گے جیسے وہ بچہ ان کے منہہ پر پاخانہ کرنے کا کہہ رہا ہو ۔

جیسا میں نے پہلے کہا کہ انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے ۔اور دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ کچھ لوگوں کی فطرت بالکل بھی نہیں بدلتی چاہے وہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں ۔بچپن سے ہی اگر ایک ماں اپنے بچے کی تربیت صحیح انداز سے کرے ،اس کی تعلیم و تربیت پر صحیح توجہ دے اور اس کی عادتوں کو صحیح رخ پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بچہ معاشرے کا ایک اچھا شہری نہ بن سکے جس سے لوگوں کا فائدہ حاصل ہو اور وہ اپنی عادتوں سے کسی کے لئے پریشانی کا باعث نہ بن سکے۔

پبلک لیٹرین ہوں یا کہ گھریلو لیٹرین ۔۔۔ بہت سے لوگوں کو جن میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ لیٹرین میں رفع حاجت کے بعد پانی بہانا تک گوارا نہیں کرتے ۔کچھ لوگ تو ایسی بڑی بڑی پھواریں مارتے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس انسان کے اپنے پیر وغیرہ کیسے غلاظت سے بچائے ہوں گے ۔بندہ جوں ہی لیٹرین میں جاتا ہے تو آٹھ دن پہلے کا کھایا گیا کھانا بھی باہر نکل جاتا ہے ۔ایسی گندی بو ، ایسی غلاظت ۔۔ایسی ایسی پھواریں ۔۔دکھائی یوں دیتا ہے ۔جیسا کہ کسی بہترین مصور نے لیٹرین کی پچھلی دیوار پر تجریدی آرٹ بنا رکھا ہو ۔

پاکی کا خیال رکھنا نصف ایمان ہے ۔اور ویسے بھی پاک صاف رہنا انسان کی صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔اگر یہی آپ اپنی لیٹرین کو صحیح انداز سے کریں گے اور پھر اسے اچھی طرح اپنی پیٹھ سے دھوئیں گے تو آپ کو بواسیر بھی کبھی نہیں ہو گی ۔بواسیر کا مرض سب سے زیادہ انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے پاخانے کو اپنی پیٹھ سے صحیح ظریقے سے صاٍف نہیں کرتے ۔

اپنا پاخانہ اپنی پیٹھ سے صاف کرنے کے بعد اپنے پاؤں اور اپنے ہاتھ اچھی طرح دیکھیں اور اسے صاف کریں ۔اس کے بعد جہاں بیٹھ کر آپ نے پاخانہ کیا تھا اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے تمام کئے دھرے پر خوب پانی بہا کر باہر نکلیں ۔تاکہ بعد میں آنے والے انسان آپ کو برا بھلا نہ کہہ سکیں ۔

پیر، 26 نومبر، 2012

اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام

میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔اصل میں میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں وقت سے پہنچ جاؤں اور اس وقت سے پہنچنے پر مجھے بہت دفعہ خفت بھی اٹھانا پڑی ہے ۔کئی بار تو شادی والی جگہ پر میں وقت سے پہلے پہنچ کر کرسیاں لگانے والوں کے ساتھ کرسیاں بھی لگا چکا ہوں ۔یار دوست یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شاید میں محبوبہ کی شادی میں شامل ہونے کے لئے کرسیاں لگانے کی آڑ لے رہا ہوں ۔

محفل کی عید ملن پارٹی کا یہ بلاوا دوسری بار تھا ۔پہلی بار جب میں اپنے سازو سامان کے ساتھ انارکلی پہنچا ( سازو سامان کا مطلب گانا بجانے کا سازو سامان نہیں تھا ، بلکہ لائیو کوریج کا سازوسامان) تو نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات ۔۔۔ خیر فون گھمایا اپنے عاطف بٹ صاحب کو جن کو میں نے کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔غنودگی بھری آواز سنائی دی کہ بس میں ابھی آیا ۔ صبر اور انتظار کیا ، اس دوران محفل پر پیغام بھی بھیجا کہ یہاں کوئی نہیں ہے جس کے جواب میں حسیب نذیر صاحب کا جوابی پیغام پڑھا کہ اچھا ہوا میں گھر سے ہی نہیں چلا ۔

خیر گرمی بہت تھی مگر اس گرمی کو دماغ سے دور رکھا اور ٹھنڈے پانی کے گلاس سے گزارا کیا۔کچھ ہی دیر بعد محترم عاطف بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔حیرت اور خوشی ہوئی کہ درجنوں انسانوں کے بیچ یہ مجھے پہچان کر سیدھے میرے پاس پہنچے۔حالانکہ میرے ساتھ میرا ایک اسسٹنٹ بھی تھا مگر یہ بھی ایسے کایاں تھے کہ اس کو پردیسی نہ جانا۔شاید اس لئے کہ صحافی تھے اور اچھے صحافی ویسے بھی ماشااللہ کافی ذہین ہوتے ہیں۔ تھوڑی باتیں ہوئیں ، بٹ صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور کچھ پرانے لوگوں کی باتیں کیں جنہیں ہم بھی جانتے تھے ۔مجھ سے بٹ صاحب نے دو ایک بار میرے بارے پوچھا تو میں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دیا ۔۔۔ بٹ صاحب سمجھ گئے کہ میں بتانا نہیں چاہتا اس لئے چپ ہو رہے ۔۔مگر آفرین ہے عاطف بٹ صاحب پر کہ جبیں پر شکن تک نہیں آنے دی ۔ بس ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا ۔اسی درمیان بٹ صاحب باری باری سب کو فون ملاتے رہے مگر کوئی آنے کی ہامی ہی نہیں بھر رہا تھا۔آخر میں محترم ساجد صاحب نے کے ہاں سے ان کے نہانے کا پتہ چلا ۔۔۔ ۔۔۔ اسی اثنا میں سہہ پہر کے تقریبا تین بج چکے تھے ۔گرمی تھی اور پیاس بھی شدید ہو چلی تھی ۔بٹ صاحب نے جوس منگوایا اسے پینے کے بعد بٹ صاحب سے اجازت طلب کی ، انہوں نے ہنستے ہوئے اجازت دی تو ان سے رخصت ہو کر گھر آکر ہم نے کھانے کی فرمائش کر دی ۔۔
اب یہاں دیکھئے کہ جب ہم گھر سے چلے تو کہہ کر گئے تھے کہ ہمارا کھانا مت پکائیے گا ۔۔ اب جو گھر بغیر کھانے کے پہنچے تو بتائیے کیا حال ہوا ہو گا ۔۔اور میرے جیسے بندے کا حال جو ویسے بھی جورو کا غلام ہو ۔۔۔ ۔

میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔۔اب مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں دیر سے کیوں پہنچ رہا ہوں ۔چاروں طرف نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ انارکلی حافظ جوس کارنر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کان سے موبائل لگائے ٹہلے جا رہے ہیں ۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ہو نہ ہو یہ ساجد صاحب ہی ہیں کیونکہ ساجد صاحب کی تصویر میں عید ملن پارٹی کے دھاگے میں دیکھ چکا تھا۔

ساجد صاھب کے قریب جا کے میں نے سلام دے مارا اور آہستہ سے کہا کہ میں پردیسی ہوں ۔۔۔ جواب دینے کے بعد خوب گلے سے لگا کر بھنچتے ہوئے ساجد صاحب کہنے لگے کیا حال ہیں جناب ،،، بس ایک منٹ میں ذرا یہ کتاب خرید لوں ۔۔۔ اسی اثنا میں ساجد صاحب نے امریکی سیاسیات پر ایک عدد کتاب خریدی اور پاس آ ٹھرے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ بس سب پہنچنے ہی والے ہیں ۔۔اور قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے کہا ہے کہ ہم بس نزدیک ہی ہیں بس ابھی آتے ہیں ۔میں اور ساجد صاحب ابھی حافظ جوس کارنر کی ٹیبل کی جانب رواں دواں ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مولانا صاحب اور ان کے ساتھ چھوٹے سے خوبصورت نوجوان لڑکے ہماری طرف لپکے چلے آتے ہیں ۔ساجد صاحب نے تھوڑی دور سے ان کو دیکھ کر کہا کہ لیں جناب قادری صاحب بھی آگئے ۔میں نے ان کو غور سے دیکھا اور ساجد صاحب سے آہستہ سے کہا کہ یارا یہ تو مولوی لوگ ہیں اور مجھے مولویوں سے ویسے ہی بڑا ڈر لگتا ہے ۔۔ساجد صاحب میری بات سن کر ہنس پڑے۔

قریب آتے ہی قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے گرمجوشی سے سلام کیا ۔ہم سب چلتے ہوئے حافظ جوس کارنر کی ایک ٹیبل پر براجمان ہوگئے ۔اس سے پہلے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی خیر خبر لیں ۔۔ ایک ویٹر جن کی طرح حاضر ہو گیا ۔۔۔ کیا لیں گے جی ۔۔۔ اب اس کو ٹہلایا کہ ابھی ہمارے مہمان آنے ہیں ۔وہ بھی سمجھ گیا ہو گا کہ یہ بس ایویں ہی ہیں ۔۔کسی نہ کسی کا انتظار کریں گے اور چل دیویں گے

قادری صاحب اور حسیب نذیر نے اپنا اپنا تعارف کروایا جس پر میں نے حسیب نذیر کو کہا کہ یارا محفل میں تو آپ کافی فنکار لگتے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ آپ تو ہم سب میں چھوٹے ہیں۔حسیب نذیر صاحب ہنس دئے ۔

قادری صاحب اور حسیب نذیر نے بتایا کہ بس بابا جی بھی پہنچنے والے ہیں ۔اسی دوران مجھے عاطف بٹ صاحب کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ساجد صاحب سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بس آیا ہی چاہتے ہیں۔۔۔ اتفاق دیکھئے کہ ادھر عاطف صاحب کی آمد ہوتی ہے اور بابا جی بھی جن کی طرح آ دھمکتے ہیں ۔۔ بابا جی کو دیکھا تو سوچا کہیں میرے بابا کہنے سے اس سمارٹ سے لڑکے کی توہین ہی نہ ہو ۔ مگر بابا جی تھے کہ انہیں بابا جی کہنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔

سب پہنچ چکے تھے ۔ ہنسی مذاق شروع ہو چکا تھا ، لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم سب پہلی بار مل رہے ہیں ۔انجان لوگوں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے سے ملیں اور اجنبیت کا احساس بھی نہ ہو ۔۔حیرت ہے نا ۔بس کچھ ایسا ہی تھا اور تصاویر اس کی گواہ ہیں ۔۔۔

عاطف بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہنس مکھ اور ذہین انسان اور درد دل رکھنے والا ۔۔۔ ۔ زندگی میں میں نے کم لوگوں کو ایسا دیکھا ہے
ساجد بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ذہین انسان ۔۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کر کے منوا سکتے ہیں ۔۔۔ اچھے انسان ہیں
قادری صاحب ۔۔۔ ۔ ایسے مذہبی انسان جو علم رکھتے ہوئے بھی کم گو ہیں ۔۔ بغیر وجہ کہ میں نے انہیں بولتے نہیں دیکھا ۔۔۔ دوسرے مولویوں کے برعکس انہوں نے کھانا بھی کم مقدار میں اور تہذیب یافتہ انداز میں کھایا۔اچھے انسان لگے
حسیب نذیر ۔۔۔ ۔۔ذہین ، فطین اور سوچ کر بولنے والا نوجوان ۔۔۔ آنکھوں کی چمک کچھ کر گذرنے کا پتہ دیتی ہے ۔۔۔ شریف اور خوبصورت نوجوان ہے ۔۔۔ دیکھ کر اچھا لگا
بابا جی سرکار ۔۔۔ ۔ بغیر داڑھی کے مولوی ۔۔۔ بزرگوں کی عزت کرنے اور ان کو ماننے والا ۔۔۔ اچھا انسان ہے

[gallery ids="602,603,604,605,606,607,608,609,610,611,612,613,614,615,616,617,618,619,620,621,622,623,624,625,626,627,628,629,630,631,632,633,634,635,636,637,638,639,640"]

ہفتہ، 24 نومبر، 2012

دل تے ماریں چاقو ایہنے ، وچ رب کیوں ریہندا

خبر کچھ یوں تھی کہ اوکارہ میں حجام کے ناک کان اور ہونٹ کاٹ دئے۔آنکھیں باہر نکال دیں

نک وڈ دے ، کَن وڈ دے ، وڈ دے جو دل کیہندا
آنکھاں کڈ کے انہاں کر دے درد تو نہیں سینہدا
دل تے ماریں چاقو ایہنے ، وچ رب کیوں ریہندا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناک کاٹ دو ، کان کاٹ دو ، کاٹ دو جو آپ کا دل کہتا ہے
آنکھیں نکال کر اندھا کردو ، درد آپ نے تو نہیں جھیلنا
دل پر اتنے چاقو مارو کہ اس کے دل میں رب کیوں رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کب بدلے گا پاکستان

چڑیا گھر ہیں بچوں کے

کچھ سالوں سے پہلے تک
سب نگر تھے بچوں کے
اب اپنا گھر تو دور کی بات
چڑیا گھر ہیں بچوں کے

کب بدلے گا پاکستان

کر دو اسے اندر ۔۔۔۔

بڑا بولے تو مچھندر
غریب بولے تو بندر
کر دو اسے اندر ۔۔۔۔

کب بدلے گا پاکستان

ملنگ گالی دے تو مجذوب

ملنگ گالی دے تو مجذوب
ہم گالی دیں تو معتوب
اٹھ تیری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کب بدلے گا پاکستان

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...