میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔اصل میں میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ میں وقت سے پہنچ جاؤں اور اس وقت سے پہنچنے پر مجھے بہت دفعہ خفت بھی اٹھانا پڑی ہے ۔کئی بار تو شادی والی جگہ پر میں وقت سے پہلے پہنچ کر کرسیاں لگانے والوں کے ساتھ کرسیاں بھی لگا چکا ہوں ۔یار دوست یہ سمجھتے رہے ہیں کہ شاید میں محبوبہ کی شادی میں شامل ہونے کے لئے کرسیاں لگانے کی آڑ لے رہا ہوں ۔
محفل کی عید ملن پارٹی کا یہ بلاوا دوسری بار تھا ۔پہلی بار جب میں اپنے سازو سامان کے ساتھ انارکلی پہنچا ( سازو سامان کا مطلب گانا بجانے کا سازو سامان نہیں تھا ، بلکہ لائیو کوریج کا سازوسامان) تو نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات ۔۔۔ خیر فون گھمایا اپنے عاطف بٹ صاحب کو جن کو میں نے کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔غنودگی بھری آواز سنائی دی کہ بس میں ابھی آیا ۔ صبر اور انتظار کیا ، اس دوران محفل پر پیغام بھی بھیجا کہ یہاں کوئی نہیں ہے جس کے جواب میں حسیب نذیر صاحب کا جوابی پیغام پڑھا کہ اچھا ہوا میں گھر سے ہی نہیں چلا ۔
خیر گرمی بہت تھی مگر اس گرمی کو دماغ سے دور رکھا اور ٹھنڈے پانی کے گلاس سے گزارا کیا۔کچھ ہی دیر بعد محترم عاطف بٹ صاحب تشریف لے آئے ۔حیرت اور خوشی ہوئی کہ درجنوں انسانوں کے بیچ یہ مجھے پہچان کر سیدھے میرے پاس پہنچے۔حالانکہ میرے ساتھ میرا ایک اسسٹنٹ بھی تھا مگر یہ بھی ایسے کایاں تھے کہ اس کو پردیسی نہ جانا۔شاید اس لئے کہ صحافی تھے اور اچھے صحافی ویسے بھی ماشااللہ کافی ذہین ہوتے ہیں۔ تھوڑی باتیں ہوئیں ، بٹ صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور کچھ پرانے لوگوں کی باتیں کیں جنہیں ہم بھی جانتے تھے ۔مجھ سے بٹ صاحب نے دو ایک بار میرے بارے پوچھا تو میں نے آئیں بائیں شائیں میں جواب دیا ۔۔۔ بٹ صاحب سمجھ گئے کہ میں بتانا نہیں چاہتا اس لئے چپ ہو رہے ۔۔مگر آفرین ہے عاطف بٹ صاحب پر کہ جبیں پر شکن تک نہیں آنے دی ۔ بس ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے اور میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا ۔اسی درمیان بٹ صاحب باری باری سب کو فون ملاتے رہے مگر کوئی آنے کی ہامی ہی نہیں بھر رہا تھا۔آخر میں محترم ساجد صاحب نے کے ہاں سے ان کے نہانے کا پتہ چلا ۔۔۔ ۔۔۔ اسی اثنا میں سہہ پہر کے تقریبا تین بج چکے تھے ۔گرمی تھی اور پیاس بھی شدید ہو چلی تھی ۔بٹ صاحب نے جوس منگوایا اسے پینے کے بعد بٹ صاحب سے اجازت طلب کی ، انہوں نے ہنستے ہوئے اجازت دی تو ان سے رخصت ہو کر گھر آکر ہم نے کھانے کی فرمائش کر دی ۔۔
اب یہاں دیکھئے کہ جب ہم گھر سے چلے تو کہہ کر گئے تھے کہ ہمارا کھانا مت پکائیے گا ۔۔ اب جو گھر بغیر کھانے کے پہنچے تو بتائیے کیا حال ہوا ہو گا ۔۔اور میرے جیسے بندے کا حال جو ویسے بھی جورو کا غلام ہو ۔۔۔ ۔
میں تقریبا پانچ سے سات منٹ لیٹ تھا ۔۔اب مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں دیر سے کیوں پہنچ رہا ہوں ۔چاروں طرف نظر دوڑائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ انارکلی حافظ جوس کارنر کے بیچوں بیچ ایک صاحب کان سے موبائل لگائے ٹہلے جا رہے ہیں ۔ غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ ہو نہ ہو یہ ساجد صاحب ہی ہیں کیونکہ ساجد صاحب کی تصویر میں عید ملن پارٹی کے دھاگے میں دیکھ چکا تھا۔
ساجد صاھب کے قریب جا کے میں نے سلام دے مارا اور آہستہ سے کہا کہ میں پردیسی ہوں ۔۔۔ جواب دینے کے بعد خوب گلے سے لگا کر بھنچتے ہوئے ساجد صاحب کہنے لگے کیا حال ہیں جناب ،،، بس ایک منٹ میں ذرا یہ کتاب خرید لوں ۔۔۔ اسی اثنا میں ساجد صاحب نے امریکی سیاسیات پر ایک عدد کتاب خریدی اور پاس آ ٹھرے۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ بس سب پہنچنے ہی والے ہیں ۔۔اور قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے کہا ہے کہ ہم بس نزدیک ہی ہیں بس ابھی آتے ہیں ۔میں اور ساجد صاحب ابھی حافظ جوس کارنر کی ٹیبل کی جانب رواں دواں ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک مولانا صاحب اور ان کے ساتھ چھوٹے سے خوبصورت نوجوان لڑکے ہماری طرف لپکے چلے آتے ہیں ۔ساجد صاحب نے تھوڑی دور سے ان کو دیکھ کر کہا کہ لیں جناب قادری صاحب بھی آگئے ۔میں نے ان کو غور سے دیکھا اور ساجد صاحب سے آہستہ سے کہا کہ یارا یہ تو مولوی لوگ ہیں اور مجھے مولویوں سے ویسے ہی بڑا ڈر لگتا ہے ۔۔ساجد صاحب میری بات سن کر ہنس پڑے۔
قریب آتے ہی قادری صاحب اور حسیب نذیر صاحب نے گرمجوشی سے سلام کیا ۔ہم سب چلتے ہوئے حافظ جوس کارنر کی ایک ٹیبل پر براجمان ہوگئے ۔اس سے پہلے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کی خیر خبر لیں ۔۔ ایک ویٹر جن کی طرح حاضر ہو گیا ۔۔۔ کیا لیں گے جی ۔۔۔ اب اس کو ٹہلایا کہ ابھی ہمارے مہمان آنے ہیں ۔وہ بھی سمجھ گیا ہو گا کہ یہ بس ایویں ہی ہیں ۔۔کسی نہ کسی کا انتظار کریں گے اور چل دیویں گے
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے اپنا اپنا تعارف کروایا جس پر میں نے حسیب نذیر کو کہا کہ یارا محفل میں تو آپ کافی فنکار لگتے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ آپ تو ہم سب میں چھوٹے ہیں۔حسیب نذیر صاحب ہنس دئے ۔
قادری صاحب اور حسیب نذیر نے بتایا کہ بس بابا جی بھی پہنچنے والے ہیں ۔اسی دوران مجھے عاطف بٹ صاحب کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ساجد صاحب سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بس آیا ہی چاہتے ہیں۔۔۔ اتفاق دیکھئے کہ ادھر عاطف صاحب کی آمد ہوتی ہے اور بابا جی بھی جن کی طرح آ دھمکتے ہیں ۔۔ بابا جی کو دیکھا تو سوچا کہیں میرے بابا کہنے سے اس سمارٹ سے لڑکے کی توہین ہی نہ ہو ۔ مگر بابا جی تھے کہ انہیں بابا جی کہنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
سب پہنچ چکے تھے ۔ ہنسی مذاق شروع ہو چکا تھا ، لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم سب پہلی بار مل رہے ہیں ۔انجان لوگوں میں ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ آپ ایک دوسرے سے ملیں اور اجنبیت کا احساس بھی نہ ہو ۔۔حیرت ہے نا ۔بس کچھ ایسا ہی تھا اور تصاویر اس کی گواہ ہیں ۔۔۔
عاطف بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ہنس مکھ اور ذہین انسان اور درد دل رکھنے والا ۔۔۔ ۔ زندگی میں میں نے کم لوگوں کو ایسا دیکھا ہے
ساجد بھائی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ذہین انسان ۔۔ اپنی بات دلیل کے ساتھ پیش کر کے منوا سکتے ہیں ۔۔۔ اچھے انسان ہیں
قادری صاحب ۔۔۔ ۔ ایسے مذہبی انسان جو علم رکھتے ہوئے بھی کم گو ہیں ۔۔ بغیر وجہ کہ میں نے انہیں بولتے نہیں دیکھا ۔۔۔ دوسرے مولویوں کے برعکس انہوں نے کھانا بھی کم مقدار میں اور تہذیب یافتہ انداز میں کھایا۔اچھے انسان لگے
حسیب نذیر ۔۔۔ ۔۔ذہین ، فطین اور سوچ کر بولنے والا نوجوان ۔۔۔ آنکھوں کی چمک کچھ کر گذرنے کا پتہ دیتی ہے ۔۔۔ شریف اور خوبصورت نوجوان ہے ۔۔۔ دیکھ کر اچھا لگا
بابا جی سرکار ۔۔۔ ۔ بغیر داڑھی کے مولوی ۔۔۔ بزرگوں کی عزت کرنے اور ان کو ماننے والا ۔۔۔ اچھا انسان ہے
[gallery ids="602,603,604,605,606,607,608,609,610,611,612,613,614,615,616,617,618,619,620,621,622,623,624,625,626,627,628,629,630,631,632,633,634,635,636,637,638,639,640"]
شیخو بلاگ میں تازہ نیوز ، ذاتی حالات زندگی ، معاشرتی پہلو اور تازہ ٹیکنیکل نیوز کے متعلق لکھا جاتا ہے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Featured Post
جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...

-
اساں چولا پایا عشقے دا اساں بنھ لئے گھنگرو یار دے دس کیہ کریے ایہناں اکھیاں دا وچ سُفنے چھمکاں مار دے اساں چیتر گروی رکھیا سی اج ہاڑ ک...
-
پاکستان بھر میں بارشوں کی رومانوی چھاؤں ۔ بارش کے اس خوبصورت موسم میں بوندوں کی زبانی پینو کافی شاپ کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، جہاں ...
-
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بی بی اے کے طالب علم مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کا واقعہ پاکستان کے سب سے زیادہ زیرِ ...
حسنِ تحریر کی ایک مثال، محبت و مٹھاس اور چاشنی سے بھرپور(شوگر فری)، دل کو چھو لینے
جواب دیںحذف کریںوالی(بغیر ہارٹ اٹیک)، پُرکشش، جاذب نظر، توجہ کھینچنے والی ایک پھلجڑی جناب
نجیب عالَم پردیسی کے پیار کا اظہار۔
میں خاموش اس لیے رہا تھا مجھے ایک قولِ زریں جو کہ بارہا پڑھا تھا لیکن عمل صرف ایک دن کیا
"خاموشی عقلمند کا ہتھیار اور بے وقوف کا بھرم ہوتی ہے"
آخرالذکر مراد ہے۔ ورنہ میں تو۔۔۔۔۔۔ کم ہی خاموش رہتا ہوں۔ اکثر اوقات کم ظرفی دکھا جاتا ہوں
اوپر والے تاثرات میں شاید وقفہ نہ ہونے کی بناء پر کچھ درستگی کی ضرورت ہے
جواب دیںحذف کریںمحترم قادری صاحب
جواب دیںحذف کریںآپ کے خلوص اور محبت کا بے حد شکریہ
دل کی بات تھی جو میں نے لکھ دی تھی۔ میں نے اسی دن گھر جا کر ایک روداد ورق پر لکھ دی تھی۔ لیکن آج تک کہیں بھی پوسٹ نہیں کی
جواب دیںحذف کریں