جمعہ، 30 نومبر، 2012

شفقت کا دوسرا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا

my-father

بہت مان تھا ، بہت بھروسہ تھا کہ کچھ غلط ملط کروں گا تو بچ جاؤں گا کیونکہ میرے ماں باپ کی دعائیں میرے ساتھ ہوتی ہیں ۔آج سے ڈیڑھ سال پیشتر ماں کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔۔شدید دکھ پہنچا ۔۔۔ کس کو کہتا اور پھر سنتا بھی کون ہے ۔بس ابا جی سے دل کے پھپھولے پھولتا رہا ۔اور گزشتہ روز مورخہ اٹھائیس نومبر بروز بدھ صبح سات بجے کے قریب وہ بھی ہم سے جدا ہوگئے ۔

سوچتا ہوں اب کس سے دل کی باتیں کروں گا ، ماں کا غم پہلے ہی کیا کم تھا جو اب ابا جی کا غم بھی کاندھے پر لد گیا ۔ کس کو سناؤں گا یہ غم ، کس سے کروں گا دل کی باتیں ، کس کی دعائیں لوں گا، سمجھ نہیں آ رہا

1 تبصرہ:

  1. انا للہ وانا الیہ راجعون
    اللہ عزوجل آپ کا صبر جمیل عطا فرمائے
    اور انکل کی مغفرت و بخشش فرمائے
    تسلی دینا تو صرف ایک رسم ہے۔ اللہ ہی سب کا خالق اور مالک ہے۔ اسی کا مال اسی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ ہم سب نے لوٹ جانا ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں بھی اپنی اپنی آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...