کچھ اپنی باتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کچھ اپنی باتیں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 26 نومبر، 2013

انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے

1tکہتے ہیں کتے اور انسان کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور کہتے یہ بھی ہیں کہ جہاں انسان ہوتا ہے وہاں کتا بھی پایا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں انسان کا پایا جانا لازم نہیں ہے ۔جیسا کہ سننے میں آتا ہے انسان اور کتے کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور اب صدیوں میں دونوں نے ایک دوسرے سے کیا کیا سیکھا اس کے بارے میں تحقیق ہونا ابھی باقی ہے ۔۔کتے کے ‘‘ کتے پن ‘‘ پر تو تحقیق کرنا انتہائی آسان ہے مگر اس عرصہ میں انسان پر کتنا ‘‘ کتا پن ‘‘ چڑھا ، اس پر تحقیق کرنا از حد ضروری ہے ۔

کتوں کی پچاس سے زیادہ مقبول نسلیں ہیں ۔۔۔ جن میں جرمن شیفرڈ ، بیلجئیم شیفرڈ ، شیفرڈ سکاٹش ، پوائینٹر، افغان ہاؤنڈ ، اکیتا ہاؤنڈ ، بیگل ، باکسر، بلڈاگ ، فرانسیسی بلڈاگ ، بل ٹیریر - چیوہاؤ ، سکیں سکیں ، کوکر ، فاکس ٹیریر ،گولڈن ،ہسکی سائبیرین ، لیبرے ڈار ، مالٹی ، نیپولٹن ، سان برنارڈو ، سیٹر - آئرش سیٹر ، سکاٹش ٹیریر ، ویلش ٹیریر ، یارکشائر ٹیریر ۔۔۔۔ مقبول ترین ہیں

ان کتوں سے انسانوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر کتے کا روزانہ کا خرچہ پاکستان کے ایک ہزار غریب آدمیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور اگر آپ ان کتے کی نسلوں سے انسان کے پیار کا اندازہ لگانا اور ساتھ ہی اس کا نظارہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے بیڈ رومز میں جا کر کر سکتے ہیں ۔

میری ذاتی تحقیق کے مطابق کتوں کی ان عظیم نسلوں میں سے کسی انسان کو میں نے ایسا نہیں دیکھا جو کہ ان کتوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی تحقیر محسوس کرتا ہو ۔ہاں یہ ضرور ہے اور اس بارے میں بھی ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ خود اعلیٰ نسل کے ان کتوں میں سے کسی کتے یا کتے کے بچے کو انسان کے ساتھ بیٹھنا یا میل ملاپ رکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

کتوں کی ان عظیم نسلوں کے علاوہ ایک عظیم اور قدیم نسل اور بھی ہے جسے میں ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گل یڑ ) ۔( گلی کے آوارہ کتے ) کہتا ہوں ۔اسی نسل کو سب سے زیادہ ٹھڈے ، جوتے اور ڈنڈے بھی پڑتے ہیں اور گالیوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں ۔۔۔مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی جب آپ اس کو روٹی کا ٹکڑا دیتے ہیں تو اس نسل یعنی ‘‘ گلیڑ ‘‘ کتے کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آپ صاف دیکھ سکتے ہیں ۔

کتوں کی اتنی عظیم نسلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر کسی سیانے نے ‘‘ کتوں جیسی بے عزتی ‘‘ کا محاورہ ایجاد کر ہی دیا تھا تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تو ہوگی ۔اور جب یہ محاورہ ایجاد ہو ہی گیا تو لاگو بھی ہو گا اور جب لاگو ہوگا تو محسوس بھی ہوگا۔۔۔۔۔ مگر سیانوں کی باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور سیانے کہتے ہیں ۔ ‘‘ سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو گے اتنی زیادہ لگے گی ‘‘ ۔

کتے تو پھر کتے ہیں ان کو کیا کہنا ۔۔۔۔ انسانوں کی بات کیجئے جی ۔۔۔کیونکہ انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے مگر کتا انسان نہیں بن سکتا ۔



پیر، 21 اکتوبر، 2013

معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام

dr-aniqa-nazآج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت کے فرائض محترم عاطف بٹ نے انجام دئے جبکہ اس نشست کے مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے ہوئے بلاگر اور لکھاری سکندر حیات بابا تھے۔ دیگر بلاگرز میں لاہور کے ہر دلعزیز بلاگر ساجد نامہ کے محترم ساجد شیخ اور شیخو و پردیسی بلاگ کے بانی نجیب عالم نے شرکت کی ۔

IMG_6174 (Custom)

یاد رہے کہ معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کا ٢٢ اکتوبر ٢٠١٢ء بروز سوموار کو کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔اردو بلاگنگ میں ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے آج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر عنیقہ ناز کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے لئے دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

IMG_6175 (Custom)


معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام

عنیقہ ناز کے لئے ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔ اس تعزیتی نشست کی صدارت کے فرائض محترم عاطف بٹ نے انجام دئے جبکہ اس نشست کے مہمان خصوصی کراچی سے تشریف لائے ہوئے بلاگر اور لکھاری سکندر حیات بابا تھے۔ دیگر بلاگرز میں لاہور کے ہر دلعزیز بلاگر ساجد نامہ کے محترم ساجد شیخ اور شیخو و پردیسی بلاگ کے بانی نجیب عالم نے شرکت کی ۔

IMG_6174 (Custom)

یاد رہے کہ معروف اردو بلاگرہ ڈاکٹر عنیقہ ناز کا ٢٢ اکتوبر ٢٠١٢ء بروز سوموار کو کراچی میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا۔اردو بلاگنگ میں ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی روح کے ایصال ثواب کے لئے آج مورخہ ٢٠ اکتوبر ٢٠١٣ کو بمقام پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر عنیقہ ناز کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور ڈاکٹر صاحبہ کے لئے دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین

IMG_6175 (Custom)


بدھ، 9 اکتوبر، 2013

پیشانی پر رکھا پردیسی نام تبدیل کر دیا گیا

محترم قارئین کرام !!!! بلاگ کی پیشانی پر رکھا '' پردیسی بلاگ '' کا نام تبدیل کر کے پرانا نام '' شیخو بلاگ '' رکھ دیا گیا ہے ۔ اگر کسی صاحب کو پرانے نام سے کچھ لینا دینا ہو تو اسی نئے نام سے رابطہ کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکال سکتا ہے ۔۔۔


ہفتہ، 6 جولائی، 2013

جہازوں کی دنیا سے ۔۔۔ کچھ شابو پہلوان کی باتیں

pomi1ہم ٢٠١٣ میں داخل ہو چکے ہیں مگر ہمارے پاکستان کے تقریباً ہر گلی محلے میں آپ کو آج بھی نشے کے عادی انسان کسی نالی میں گرے پڑے نظر آتے ہیں ۔آئیے آج ہم ایسے ہی ایک نشے کے عادی انسان سے باتیں کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں


pomi2


[audio: http://snaji.com/wp-content/uploads/2013/07/pomi.mp3]


ایچ ٹی ایم ایل فائیو آڈیو پلئر




[soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/99906479" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]

پیر، 24 جون، 2013

شہرِ خموشاں سے تازہ بہ تازہ

umer-farooq-01
ہفتہ بھر میں ایک بار میں ضرور اپنے ماں باپ کی قبر پر جاتا ہوں ۔۔ شاید دعائیں لینے ۔۔۔ مگر میں یہ بھی جانتا ہوں اور اس پر میرا ایمان بھی ہے کہ مردے کبھی کچھ نہیں دے سکتے۔۔ کیونکہ جو خود کے لئے کچھ نہیں کر سکتے وہ دوسروں کو کیا دیں گے۔ بس مجھے اپنے ماں باپ سے انسیت ہے ، پیار ہے ۔۔ شاید اس لئے میں ان کے بغیر زیادہ دیر رہ نہیں سکتا ۔قبرستان جانے کے لئے میں نے کوئی دن مخصوص نہیں کر رکھا اور نہ ہی میں قبروں یا مزاروں کا ماننے والا ہوں ۔۔۔ میں سیدھا اللہ سے مانگتا ہوں اور وہی میری مرادیں پورا کرتا ہے ۔

بات ہو رہی تھی قبرستان یعنی شہر خموشاں کی ۔۔۔ جہاں خموشی ہوتی ہے وہاں انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر کچھ نہ کچھ سوچتا ضرور ہے ۔اور اس سوچ میں کچھ نیا بھی ہو سکتا ہے ۔اب آپ یہی دیکھیں بیت الخلا کی خاموشی میں بیٹھ کر بہت سے لوگ شاعر بن بیٹھے اور کچھ فلسفی ۔۔۔۔۔۔ ٹویٹر اور فیس بک اس کی زندہ مثال ہیں

ہمیں بھی کچھ نیا سوجھا ہے مگر ہمیں بیت الخلا کی خاموشی میں نہیں بلکہ قبرستان کی خموشی میں کچھ نیا سوجھا ہے ۔وہاں ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اب بلاگنگ کو نیا رنگ دیا جائے یعنی تحریر کے ساتھ ساتھ اب آڈیو اور ویڈیو بلاگنگ کو پاکستان میں متعارف کروایا جائے تو اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ہم نے قبرستان کے گورکن کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا ہے جو کہ آپ کی نظر ۔۔۔انٹرویو دو حصوں پر محیط ہے پہلا حصہ تقریبا پندرہ منٹ اور دوسرا ڈیڑھ منٹ کا ہے ۔تو آئیے سنتے ہیں ۔۔۔


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-001.mp3]


[audio:http://snaji.com/audio/audio-23-06-13-002.mp3]


umer-farooq-02



منگل، 11 جون، 2013

اختیار کا ہونا بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو استمال کرنا بڑی بات ہے

اختیارات کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اختیارات کو دھڑلے سے استمال کرنا ایک بڑی بات اور فن ہے۔جس کا استمال تھوڑے دل کا، بزدل یا بیوقوف آدمی نہیں کر سکتا ۔اب یہی دیکھیں کہ اگر ایک چوڑا ( جمعدار ) جس کے پاس لیٹرین کے اندر داخل کرنے کا اختیار ہے اگر وہ اپنے اختیار کو سمجھتے ہوئے اسے استمال کرنے کا فن جانتا ہوگا تو وہ ایک صدر کو اپنی لیٹرین کے باہر تب تک روک کر رکھ سکتا ہے جب تک اس کا پاخانہ نہ نکل جائے ۔

قانون کیا کہتا ہے یا قوانین کیا ہیں ۔ آپ اپنے عہدے کے ساتھ اپنے اختیارات قوانین کے دائیرے میں رہ کر کیسے استمال کرنے ہیں یہ ایک فن ہے ۔ ویسے بھی اختیارات کے ہوتے ہوئے اختیارات کا صحیح طریقے سے استمال کرنا خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے ۔

میاں محمد اظہر گورنر تھا ۔۔۔منظور وٹو وزیراعلیٰ تھا ۔۔۔اختیارات کے استمال کا فن منظور وٹو کو تھا ۔۔۔ میاں اظہر ماں کی خدمت کرنے گھر چلا گیا ۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم تھا ۔۔۔ پرویز مشرف جنرل تھا ۔۔۔ اختیارات کے استمال کا فن مشرف کو تھا ۔۔۔ میاں صاحب اللہ کے گھر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون کی حکومت تھی

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔۔ زرداری صدر مملکت ۔۔۔ پانچ سال سب کو تگنی کا ناچ نچا دیا ۔۔۔ آج بھی صدر ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت ۔۔۔ رحمان ملک وزیر داخلہ ۔۔۔ ایسا وزیر داخہ جس کا پورے ملک پر راج ۔۔۔ جو کہتا تھا کردیتا تھا ۔۔۔ جھوٹ کو سچ پر منوانے کا فن بھی جانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مسلم لیگ کی پنجاب میں حکومت تھی ۔۔۔۔ کچھ نہ بگاڑ سکے۔

اور اب مسلم لیگ نون کی اختیارات والی حکومت ۔۔۔ دس دن ہونے کو ہیں ۔۔۔ تمام ٹولہ پیپلز پارٹی کا موجود ۔۔۔۔ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔۔۔ اختیارات استمال کرنے کا سلیقہ ہی نہیں ۔۔۔ ڈاکو لٹیرے اپنی سیٹوں پر جوں کے توں براجمان ۔۔۔ملک ابھی تک اندھیرے میں

اور آج صدر زرداری نے دھڑلے سے اسمبلی میں اپنے سامنے بے نظیر کی تصویر رکھ کر اسمبلی میں خطاب کیا ۔۔۔ کسی مسلم لیگی کی ہمت تک نہ ہوئی کہ وہ اٹھ کر کہہ سکے کہ یہ پیپلز پارٹی کی اسمبلی نہیں ہے اور نہ ہی تمہارے باپ کی جاگیر ۔۔۔ حتکہ سپیکر صاحب کو اپنے اختیارات تک کا نہیں پتہ کہ وہ صدر کو منع کرسکتا تھا کہ یہاں اسمبلی میں تصویر صرف قائد اعظم کی لگے گی۔۔بے نظیر کی نہیں ۔۔۔۔۔

واہ رے مسلم لیگ تیری حکومت
ملک ابھی تک اندھیرے میں ہے

اٹھو مسلم لیگی حکمرانوں ۔۔۔اگر بچنا ہے تو ۔۔۔۔۔ روشن پاکستان بنانا ہے تو ۔۔۔۔۔ کرو اپنے اختیارات کا استمال ۔۔۔۔ چوروں ڈاکؤں لٹیروں کو کھڈے لائن لگا دو





جمعرات، 30 مئی، 2013

بندر اور انسان میں فرق

بندر اور انسان میں خاصا فرق ہے ، ہاں بندر اور بلبل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے وہ اس لئے کہ دونوں پیچھے سے لال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
رہی بات بندر اور انسان کے خاندانی پس منظر کی تو ان میں کوئی خاصا فرق نہیں ہے ان دونوں کا خاندانی پس منظر کتے کی ایک خاص نسل بگھیاڑ سے جا ملتا ہے۔جو وقت آنے پر ایک دوسرے کو بھی چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں




پیر، 27 مئی، 2013

اردو بلاگرز اور اردو محفل کے دوستوں کے ساتھ ایک شام

تقریباً ایک ہفتہ قبل فیس بک پر انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) نے میرا دروازہ کھٹکایا اور کہا کہ بھائی آپ ابھی تک سوئے پڑے ہیں کیا کوئی لاہور میں ہلاگلا کرنے کا ارادہ بھی ہے یا کہ نہیں ۔۔۔ ہم نے بھی ایک آنکھ کھول کر پہلے انکل ٹام کو دیکھا پھر سوچا کہ کہیں یہ ٹام اینڈ جیری والے ٹام نہ ہوں اس لئے دوسری آنکھ کھول کر ہم نے فوراً کہا کہ کیوں نہیں جب کہیں بنا لیتے ہیں پروگرام ۔۔۔۔۔۔ ہم نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کو اگلے ہی ہفتہ میں یعنی گذشتہ روز چھبیس مئی دوہزار تیرہ بروز اتوار شام چھ بجے کا کہہ دیا ۔

گذشتہ روز سخت گرمی میں ایک خوبصورت شام تھی ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔ ہم پونے چھ بجے ہی پاک ٹی باؤس جاکر بیٹھ گئے اور لگے بھائی لوگوں کا انتظار کرنے ۔سب سے پہلے محفل کے ہمارے خوبصورت اور دبنگ دوست بابا جی سرکار تشریف لائے ۔پھر اپنے ساجد بھائی اپنے دو عدد مہمانوں کے ساتھ تشریف لائے ۔جن میں سے ایک گلگت کے معروف صحافی تھے اور ایک لاہور کے معروف لکھاری ۔۔۔ بعد ازاں انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) محمد عبداللہ اپنے ایک کزن کے ساتھ تشریف لائے ان کے ساتھ ساتھ حجاب شب ، عاطف بٹ صاحب ، سبہانی صاحب اور دیگر دوست بھی تشریف لے آئے ۔

چائے کا دور شروع ہوا ۔۔سب کو پوچھنے کے بعد میں نے خصوصی طور پر ارسلان شکیل سے پوچھا کہ وہ کیا کھانا پسند کریں گے ۔۔ارسلان کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ نہیں کھانا بلکہ وہ ہمارے سب کے لئے ٹورنٹو ( کینڈا) سے پیزا بنوا کر لائے ہیں۔میرے سمیت سب بڑے حیران ہوئے ۔۔ کیونکہ ہمیں بلکل بھی نہیں پتہ تھا کہ انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں ۔ارسلان شکیل کا کہنا تھا کہ میں دو دن سے بالکل بھی نہیں سویا ہوں اور اس وقت مجھے کولڈ کافی کی طلب ہو رہی ہے ۔۔۔ اب ہم جہاں بیٹھے تھے وہاں کولڈ کافی تو ملنی مشکل تھی اس لئے انہیں معذرت کے ساتھ جوس پیش کیا گیا ۔اور ہم سب نے انکل ٹام ( ارسلان شکیل ) کے والد صاحب کا خصوصی طور پر بنایا گیا ایک انتہائی لذیز پیزا چائے کے ساتھ نوش کیا۔ اور ساتھ اللہ کی قدرت کی تعریف کی کہ کس پانی ، اجزا اور کہاں اور کس کے ہاتھ کا بنا ہوا پیزا کس جگہ اور کون لوگ کھا رہے ہیں ۔۔۔ یعنی دانے دانے پر مہر ہوتی ہے ۔۔۔کوئی کسی کا لقمہ نہ تو چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی کا لقمہ کھا سکتا ہے ۔۔جب تک پروردگار نہ چاہے ۔

چائے کے دوران اور چائے کے بعد معلوماتی باتیں اور گپ شپ ہوتی رہی ۔ محمد عبداللہ ذرا تھوڑے کم گو تھے اس لئے انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں مگر سب کی باتوں میں سے تجربے کی باتیں اپنی پٹاری میں جمع کرتے رہے ۔عاطف بٹ ، ساجد ، بابا جی اور ہمارے درمیان حسب معمول جگت بازی ، چٹکلے اور شرارتیں چلتی رہیں ۔ آخر کار نو بجے کے قریب یہ خوبصورت شام اختتام پذیر ہوئی ۔

[gallery ids="994,995,996,997,998,999,1000,1001,1002,1003,1004,1005,1006,1007,1008,1009,1010,1011,1012,1013,1014,1015,1016,1017,1018,1019,1020,1021,1022,1023,1024,1025,1026,1027,1028,1029,1030,1031,1032,1033,1034,1035,1036,1037,1038,1039,1040,1041,1042,1043,1044,1045,1046,1047,1048,1049,1050,1051,1052,1053,1054,1055,1056,1057,1058,1059,1060,1061,1062,1063,1064"]



اردو محفل میں عسکری کے ساتھ گزارے چند لمحات

عسکری ( عمران ) ایک محنتی ، خوبصورت اور باعمل انسان ۔۔ میری اس سے کبھی ذاتی ملاقات نہیں ہوئی ، ذاتی ملاقات تو دور کی بات ٹھرتی ہے میری تو اس سے کبھی میل کے زریعہ سے بھی ملاقات نہیں ہوئی ۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو دل کو بھاتے ہیں تو بس عسکری ایسا ہی ایک انسان ہے ۔تھوڑا ضدی ہے مگر دل کا انتہائی نرم ۔۔۔ سوچتا خود ہی ہے اور اسی سوچ پر سب کو پرکھتا ہے ۔اپنی سوچ کے بارے میں کسی سے مشورہ لینے سے اسے جھجھک محسوس ہوتی ہے ۔۔
بہت سی چیزوں سے متنفر ہے ۔ خود کو تکلیف دینے میں شاید اسے مزا آتا ہے ۔۔ ویسے بھی اکیلا پن تکلیف دہ ہی ہوتا ہے
محبت کا بھوکا ہے ۔۔۔ میں نے کہا تھا جاؤ ماں کی دعائیں اور پیار لے لو ۔۔۔ مگر شاید اسے وقت ہی نہیں ملا ۔۔۔ اگر وہ ماں کو فون ہی کر لیتا تو شاید اسے سکون آجاتا۔
اب مجھ سے متنفر ہے ۔۔۔ ۔۔۔
سوچتا ہوں محفل کو چھوڑنے سے قبل مجھے اسے بتانا ضرور چاہئے تھا



ہفتہ، 4 مئی، 2013

مزاح اور پھکڑ پن میں فرق

مزاح اور پھکڑ پن میں صرف ایک چھوٹی سی لکیر کا فرق ہے۔۔۔اور وہ ہے سمجھنے کی لکیر ۔۔۔ کچھ لوگ پھکڑ پن کو اصلی مزاح کا درجہ دیتے ہیں ۔۔ان کا کہنا یہ ہے کہ پھکڑپن ہو گا تو مزاح ہو گا۔۔اگر پھکڑ پن نہیں ہو گا تو وہ تحریر اپنا سنجیدہ مزاج لئے ہوئے ہوگی۔

اب یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ اصل میں پھکڑ پن کا مطلب کیا ہے ؟

کچھ پھکڑ پن کو بیوقوفانہ انداز ،زبان قرار دیتے ہیں ، کچھ چَول مارنا کہتے ہیں،کچھ بدتمیز اور کچھ بدتہذیب انداز بیاں بھی قرار دیتے ہیں۔۔ایسا بدتہذیبانہ انداز جس میں دوسرے کی عزم وتکریم کا خیال نہ رکھا گیا ہو
اب سوال یہ ہے کہ میرے نزدیک پھکڑ پن کیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ صرف ایک علاقائی لفظ ہے جو خود ساختہ بنایا ہوا ہے ۔۔۔مزاح اور پھکڑ پن کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔مزاح ایک لطیف سا عنصر ہے جو دوسروں کو مسرت کے چند لمحات مہیا کرتا ہے۔اور مزاح کو کسی اور کے ساتھ تشبیح دی ہی نہیں جا سکتی



اتوار، 31 مارچ، 2013

پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں

شنید ہے کہ پنجاب میں بسنت منانے ( گلے کاٹنے ) کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اچھی بات ہے زندگی میں کچھ شغل میلہ بھی تو ہونا چاہئے ۔اب یہ کیا کہ بم دھماکوں سے ہی ہم معصوم بچے اور بڑوں کو مرتا دیکھیں ۔اب دہشت گردی میں کچھ نیا پن بھی تو آنا چاہئے ۔۔ آٹھ دس بچوں کے گلے کٹیں ، کچھ عورتیں لہولہان ہوں اور مرد اپنے ٹوٹی ٹانگوں والے بچوں کو ہسپتال لئے لئے پھریں ۔
اب بہت ہوچکا ۔۔۔ میرا خیال ہے ارباب اختیار اور پاکستانی ٹی وی میڈیا کو ایسا سوچتے ہوئے بھی شرم آنی چاہئے جو بسنت کو منانے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔اگر کسی قاتل پتنگ کی ڈور سے کسی بچے کی گردن کٹ گئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ۔



منگل، 26 مارچ، 2013

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں محفلین کے اعزاز میں ایک پرتکلف پارٹی کا اہتمام

مورخہ 24 مارچ 2013 بروز اتوار کو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں اردو محفل کے آراکین کی جانب سے محفلین کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔جس میں محفلین میں سے عاطف بٹ ، بابا جی ، متلاشی ، عبدالرزاق ، محمد عمرفاروق ، نعیم قیصر، محمدکامران اختر اور پردیسی نے شرکت کی ۔
[gallery ids="761,762,763,764,765,766,767,768,769,770,771,772,773,774,775,776,777,778,779,780,781,782,783,784,785,786,787,788,789,790,791,792,793,794,795,796,797,798,799,800,801,802,803,804,805,806,807,808,809,810,811,812,813,814,815,816,817,818,819,820,821,822,823,824,825,826,827,828,829,830,831,832,833,834,835,836,837,838,839,840,841,842,843,844,845,846,847,848,849,850,851,852,853,854,855,856,857,858,859,860,861,862,863,864,865,866,867,868,869,870,871,872,873,874,875,876,877,878,879,880,881,882,883,884,885,886,887,888,889,890"]



پیر، 25 فروری، 2013

لاہور بلاگروں کا بڑے پیزے کو ہڑپ کرنا

اتوار کا دن تھوڑا مصروف ہوتا ہے اور اوپر سے عبدالقدوس کی جانب سے لاہور کے بلاگروں کے اکٹھ کا سندیسہ بھی تھا۔جلدی جلدی بیوی کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اپنے کام نمٹا کر میں نے تقریباً سوا دو کے قریب زوہیر کو فون کیا کہ میں بس تین بجے تک پہنچ رہا ہوں ۔زوہیر کا کہنا تھا کہ ہم آپ کا انتظار کریں گے ۔
سوا تین کے بعد میں لاہور گلشن راوی کے بگ پیزا ہاؤس میں داخل ہوا تو سامنے ہنستے کھیلتے زوہیر صاحب ، سعد ملک صاحب ، ایم بلال صاحب ۔ عبدالقدوس صاحب اور ان کے ہنس مکھ بھائی بیٹھے ایک بڑے پیزے کو ہڑپ کرنے میں مصروف تھے ۔
میرے السلام علیکم یا اہل المجالس کہنے پر سب محترم دوستوں نے جواب دینے کے ساتھ ہی پیزے کی بھی پیشکش کر دی ۔سعد ملک نے اپنی جگہ پیش کرتے ہوئے پیزا ڈالنا شروع کر دیا ۔کھانے کے ساتھ ساتھ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ بہت سی باتیں ہوئی ۔باتوں باتوں میں ہی ہم لوگوں نے بٹ صاحب ( عبدالقدوس ) کی مہمان نوازی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دو بڑے سائز کے پیزوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے سادی بوتلوں سے خوب انجوائے کیا۔
میں خصوصی طور پر ایم بلال کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ گجرات سے تشریف لائے اور ہمیں اپنی خوبصورت باتوں سے ہنسانے کے ساتھ ساتھ ہمارے علم میں بھی اضافہ کرتے رہے ۔



[gallery ids="714,715,716,717,718,719,720,721,722,723,724,725,726,727,728,729,730,731,732,733,734,735,736,737,738,739,740,741,742,743,744,745,746,747,748"]

مکمل تصاویر یہاں سے ڈاؤنلوڈ کریں


اتوار، 17 فروری، 2013

توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے

روکو روکو روکو ذرا ۔۔۔۔گاڑی روکو ۔۔۔
کیوں کیا ہوا ۔۔ خیر تو ہے نا، کس لئے گاڑی روکوں
یار دیکھ نہیں رہے ۔۔ گاڑی کے آگے سے کالی بلی گذر گئی ہے
او شیخ صاحب کیسی باتیں کرتے ہو یار ۔۔۔ کالی بلی ہی ہے کوئی کالا کتا تو نہیں جو کاٹ کھائے گا ۔۔ میں تو ادھر سے ہی جاؤں گا ۔۔۔ اور میں ادھر سے ہی گیا ۔اور الحمدللہ مجھے کچھ نہیں ہوا ۔اور میرے ساتھ گاڑی میں جانے والے شیخ صاحب بھی آج تک زندہ ہیں
یہ واقعہ انیس سو اسی کی دہائی کا ہے ۔ اس کے بعد سے آج تک میرے سامنے سے سینکڑوں کالی نیلی پیلی بلیاں گذر چکی ہیں ۔

آج دو ہزا تیرا کے ابتدائی ایام ہیں ۔دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوئی ہے ۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ توہمات پرستی آج بھی ویسے کی ویسی ہے ۔لوگ آج بھی کالی بلی کے آگے سے گذرنے پر یا تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یا پھر سفر ملتوی کر دیتے ہیں ۔پرائز بانڈ کے نمبروں یا لاٹری کے ٹکٹوں کے لئے لوگ آج بھی ننگے بابوں کے سامنے عاجزی سے بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ایسے ننگے بابے جو چرس کے نشے میں مدہوش خود سے بے خبر ہیں ۔انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آج تاریخ کتنی ہے یا آج دن کون سا ہے ۔


جمعرات، 14 فروری، 2013

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر ، نبیل نقوی اور شارق مستقیم کو

میں سلام پیش کرتا ہوں امانت علی گوہر کو ۔۔ جس نے سب سے پہلا انپیج تو یونی کوڈ کنورٹر ( انپیج سے تحرہری اردو کو تبدیل کرنے کا آلہ ) ایجاد کیا ۔مجھے یاد ہے جب کمپیوٹر پر اردو لکھنا خواب تھا ۔۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ لوگوں کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انٹرنیٹ پر بھی کبھی اردو لکھی جاسکے گی ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے اردو کی بے لوث خدمت کی ۔۔ آج وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کہیں گم ہے ۔
امانت علی گوہر ایک ایسا انسان جس نے کبھی اردودانوں پر اپنا احسان نہیں جتایا۔
امانت علی گوہر ہم آپ کے اردو پر کئے گئے احسان کو کبھی نہیں بھلا سکتے

میں سلام پیش کرتا ہوں نبیل نقوی کو ۔۔۔ جس نے اردو ایڈیٹر اور اردو ویب پیڈ تخلیق کر کے ویب کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ونڈو ٩٨ اور ونڈو ایکس پی کے لئے اردو انسٹالر بنایا
میں سلام پیش کرتا ہوں شارق مستقیم کو ۔۔۔۔ جس نے امانت علی گوہر کے بعد سب سے بہترین انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر بنایا
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو بھی ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے اردو ویب سائٹ کے سانچے تیار کئے ۔۔آج انٹر نیٹ پر اردو کی ہزاروں نہیں لاکھوں ویب سائٹ موجود ہیں
میں شاباش دیتا ہوں خود ( پردیسی ) کو ۔۔۔ جس نے سب سے پہلے ورڈ پریس کو اردو میں ڈھالا

میں سلام پیش کرتا ہوں ان سب کو جو آج بھی اردو کی ترویج کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں



جمعہ، 1 فروری، 2013

کچھ تحریر بتاں چند حسینوں کے خطوط

میں اپنے تمام محترم دوستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ سرور کی تبدیلی کے دوران بلاگ کا کچھ مواد جن میں چند ایک تحریریں اور کچھ تحریروں کے تبصرے ضائع ہو گئے ہیں ۔جن کا مجھے ازحد افسوس ہے ۔
ویسے بڑے بوڑھوں نے جو بھی مثالیں بنائیں وہ ایویں ہی نہیں ہیں جیسے ایک یہ مثال جو ہم پر اس وقت صادق آ رہی ہے ۔۔۔ یعنی کہ ،
اناڑی کا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کا نقصان




پیر، 28 جنوری، 2013

اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد اور اردو بلاگرز

پہلی اردو بلاگرز کانفرنس کا انعقاد مورخہ 26-27 جنوری 2013ء کو ایوانِ صنعت و تجارت لاہور پاکستان میں کیا گیا

سب سے پہلے تو اتنی اچھی کانفرنس کے انعقاد پر میری طرف سے اور تمام اردو بلاگرز کیمونٹی کی طرف سے محسن عباس کو خراج تحسین اور بہت مبارکباد

اچھی مینجمنٹ کی بدولت اس کانفرنس کو سال کے شروع کی بہترین کانفرنس کہا جا سکتا ہے
ایسی کانفرنس جو نظم ظبط کا اعلی ترین نمونہ تھی جس میں تمام اردو بلاگرز کو عزت و احترام دیا گیا
اس کانفرنس میں ناشتے اور کھانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا
لاہور شہر سے باہر والوں کی خصوصی نگہداشت اور ان کے آرام کا خیال رکھا گیا اور انہیں لاہور کے مقامات کی سیر بھی کروائی گئی

پچھلے چند سالوں میں اردو زبان نے انٹرنیٹ پر بہت تیزی سے ترقی کی ہے جس کا فائدہ جہاں اردو دانوں کو ہوا ہے وہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی سنجیدگی سے اس طرف دھیان دینا شروع کر دیا ہے ۔کیونکہ جو بات کسی کو اس کی مادری زبان میں سمجھائی یا دماغ میں ڈالی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں ۔سوچوں کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سوچوں کے انداز کو اپنا کر انہیں اپنا رنگ دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔

میری نظر میں اس کانفرنس کے مقاصد یہ تھے

گزشتہ تین چار ماہ سے سوشل میڈیا والوں نے پاکستانی ٹی وی میڈیا کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ۔ان کا سد باب کرنا
تمام پاکستانی اردو بلاگرز کے بارے میں جانکاری حاصل کرنا
ایسے بلاگرز کی نشان دہی اور جانکاری جو انتہا پسند خیالات کے مالک ہیں
اردو بلاگرز کی سالوں میں کی گئی محنت سے بھرپور استفادہ حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا
پروفیشنل صحافیوں کو بلاگنگ کی تربیت کے لئے اردو بلاگرز کی گئی کاوشوں سے استفادہ حاصل کروانا
خام مال کو اپنے لئے حاصل کرنا۔۔۔خام مال سے مراد ایسے اردو بلاگرز جن کے ذہن ابھی پختہ نہ ہوئے ہوں
خاص کر گاؤں ، دیہات یا کہ چھوٹے شہروں کے بلاگرز کو ترجیح دے کر ان کی سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان سے کام لینا
مصر میں بلاگرز کی کاوشوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھ کر اسی کے مطابق ان سے کام لینا ۔
اردو بلاگرز کو اپنے دئے گئے پلیٹ فارم پر اکھٹا کرنا اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا
بلتستان ، پختونخواہ سے بلاگرز تیار کرنا تاکہ وہ اپنی زبان میں اپنی قوم کی رہنمائی کر سکیں

[gallery ids="426,424,425,427,428,433,432,431,430,429,434,435,436,437,438,443,442,441,440,439,444,445,446,447,448,453,452,451,450,449,454,455,456,457,422,458,459,460,461,462,463,464,465,466,467,468,469,470,471,472,473,474,475,476"]



جمعرات، 24 جنوری، 2013

چوری کا ثواب

استاد بلے کا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے۔کتنی بار منع کیا ہے کہ استاد جی مذہب کے معاملات میں نہ بولا کرو ، نہ بولا کرو مگر استاد بلا ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔میرا خیال ہے جب تک استاد بلے کو ہفتہ وار گالیاں نہ پڑیں اسکی طبعیت سیر ہی نہیں ہوتی ۔
بھلا کیا پڑی تھی بھرے چوک میں کہنے کہ کہ عید میلادالنبی پر چوری کی بتیوں سے چراغاں کیا جاتا ہے ۔بندہ پوچھے تو تو دو عیدوں کے علاوہ کسی اور عید کو مانتا ہی نہیں اور بھلا تجھے کیا پتہ ان کو کتنا پیار ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔۔۔۔۔۔ مگر اس کا کہنا ہے کہ میلاد ہو ، مجلس ہو ، میلاالنبی ہو سب چوری کی بجلی استمال کرتے ہیں ۔ان سب کا محاسبہ ہونا چاہئے اور ان سب سے پائی پائی وصول کرنی چاہئے۔
بہت بار سمجھایا ہے استاد بلے کو مگر وہ مانتا ہی نہیں ۔۔۔ کہتا ہے یہ سب ثواب کمانے کی بجائے گناہ کما رہے ہیں

جمعہ، 28 دسمبر، 2012

اپنے کئے پر پانی بہا کر جائیں

یہ تو لکھی پڑھی اور مشاہدے کی بات ہے کہ ہر انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے اور یہ بھی ہے کہ فطرت کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنی فطرتی چیزوں سے فرار بھی ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ رفع حاجت کا ہونا وغیرہ

رفع حاجت ایک خوبصورت لفظ ہے ۔اس کے سننے سے انسان کو غلاظت کا کم احساس ہوتا ہے۔اگر یہی ہم رفع حاجت کو لیٹرین کہیں تو ذرا تھوڑا زیادہ غلاظت کا احساس ہو گا۔اور اگر یہی ہم اسے پاخانہ کہہ کر پکاریں تو غلاظت کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے ۔اور اگر اس سے تھوڑا اور آگے بڑھ جائیں یعنی ہم رفع حاجت کو ٹٹی کہہ دیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی بہت غلیظ شے کا نام لے لیا۔۔۔بلکہ ٹٹی کہنے کے ساتھ ساتھ انسان کا منہہ بھی برا سا بن جاتا ہے۔اور اگر یہی کوئی پنڈ کا بچہ سارے شہری مہمانوں کے بیچ اُٹھ کر کہہ دے کہ امی مینوں ٹٹی آئی اے ( امی مجھے لیٹرین آئی ہے ) تو سب کے منہہ ایسے بن جائیں گے جیسے وہ بچہ ان کے منہہ پر پاخانہ کرنے کا کہہ رہا ہو ۔

جیسا میں نے پہلے کہا کہ انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے ۔اور دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ کچھ لوگوں کی فطرت بالکل بھی نہیں بدلتی چاہے وہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں ۔بچپن سے ہی اگر ایک ماں اپنے بچے کی تربیت صحیح انداز سے کرے ،اس کی تعلیم و تربیت پر صحیح توجہ دے اور اس کی عادتوں کو صحیح رخ پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بچہ معاشرے کا ایک اچھا شہری نہ بن سکے جس سے لوگوں کا فائدہ حاصل ہو اور وہ اپنی عادتوں سے کسی کے لئے پریشانی کا باعث نہ بن سکے۔

پبلک لیٹرین ہوں یا کہ گھریلو لیٹرین ۔۔۔ بہت سے لوگوں کو جن میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ لیٹرین میں رفع حاجت کے بعد پانی بہانا تک گوارا نہیں کرتے ۔کچھ لوگ تو ایسی بڑی بڑی پھواریں مارتے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس انسان کے اپنے پیر وغیرہ کیسے غلاظت سے بچائے ہوں گے ۔بندہ جوں ہی لیٹرین میں جاتا ہے تو آٹھ دن پہلے کا کھایا گیا کھانا بھی باہر نکل جاتا ہے ۔ایسی گندی بو ، ایسی غلاظت ۔۔ایسی ایسی پھواریں ۔۔دکھائی یوں دیتا ہے ۔جیسا کہ کسی بہترین مصور نے لیٹرین کی پچھلی دیوار پر تجریدی آرٹ بنا رکھا ہو ۔

پاکی کا خیال رکھنا نصف ایمان ہے ۔اور ویسے بھی پاک صاف رہنا انسان کی صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔اگر یہی آپ اپنی لیٹرین کو صحیح انداز سے کریں گے اور پھر اسے اچھی طرح اپنی پیٹھ سے دھوئیں گے تو آپ کو بواسیر بھی کبھی نہیں ہو گی ۔بواسیر کا مرض سب سے زیادہ انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے پاخانے کو اپنی پیٹھ سے صحیح ظریقے سے صاٍف نہیں کرتے ۔

اپنا پاخانہ اپنی پیٹھ سے صاف کرنے کے بعد اپنے پاؤں اور اپنے ہاتھ اچھی طرح دیکھیں اور اسے صاف کریں ۔اس کے بعد جہاں بیٹھ کر آپ نے پاخانہ کیا تھا اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے تمام کئے دھرے پر خوب پانی بہا کر باہر نکلیں ۔تاکہ بعد میں آنے والے انسان آپ کو برا بھلا نہ کہہ سکیں ۔

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...