روشن خیال جانور لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
روشن خیال جانور لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 30 مئی، 2013

بندر اور انسان میں فرق

بندر اور انسان میں خاصا فرق ہے ، ہاں بندر اور بلبل میں کوئی خاص فرق نہیں ہے وہ اس لئے کہ دونوں پیچھے سے لال ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
رہی بات بندر اور انسان کے خاندانی پس منظر کی تو ان میں کوئی خاصا فرق نہیں ہے ان دونوں کا خاندانی پس منظر کتے کی ایک خاص نسل بگھیاڑ سے جا ملتا ہے۔جو وقت آنے پر ایک دوسرے کو بھی چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں




اتوار، 19 نومبر، 2006

روشن خیال مجرے

آج سوچا تھا کہ کچھ لکھوں گا ، کیا دیکھتا ہوں کہ میرا پاکستان والے جناب افضل صاحب نے لاہور کے ایک ناظم میاں محمود کی ایک طوائف کے ساتھ تصویر کو موضوع سخن بنایا ہے۔
لکھتا بھی ، تو کیا لکھتا ، ساری سوچیں غائب ہوگئیں ، کبھی جناب افضل صاحب کی تلخ اور تیکھی تحریر کو پڑھتا اور کبھی ناظم میاں محمود کی تہذیب یافتہ انداز میں کھنچوائی تصویر کو دیکھا کیا۔
جناب افضل صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں ، باہر رہ کر وہ اسی پرانے پاکستان کی تصویر کو اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں جس کو کبھی وہ چھوڑ کے گئے تھے۔انہیں نہیں پتہ کہ پاکستان اب ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ اور روشن خیال ہو چکا ہے۔
سوچتا ہوں کہ اب جب وہ پاکستان آئے تو انہیں اپنے پاس بٹھا کر کیبل دکھاؤں گا جو ہر گھر میں چل رہی ہے۔جس پر روزانہ ننگے مجرے دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں۔دوپہر ہو یا رات کا کوئی پہر ، یہ ننگے مجرے سٹیج شو کے نام سے کیبل پر آپ کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں ۔روشن خیالی کی روایات کو مدِ مظر رکھتے ہوئے رات کے آخری پہر ان مجروں میں کپڑوں کی پابندی ختم کر دی جاتی ہے۔

محترم افضل صاحب نے اس خبر کو بڑی گروانا ہے ، کہتے ہیں اس خبر کے چھپنے کے باوجود اگر ملک میں بھونچال نہ آسکا تو وہ سمجھیں گے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی ایسی ذلالتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔

کیا کریں عوام ؟ کس سے فریاد کریں ؟ کس عدالت میں فریاد کریں ؟
بھونچال کون لائے گا ، جن کے پاس کھانے کو نہیں ؟
بھونچال کون لائے گا ، وہ جو صرف فتویٰ دینا جانتے ہیں
بھونچال کون لائے گا ، جو خود اسٹیج پر بیٹھ کر مجرا دیکھتے ہیں ؟
وہ زمانے لَد گئے جب چیخ و پکار سے بھونچال آیا کرتے تھے۔
ایسے نہیں آنے کا بھونچال ،
جب تک بھوکے ننگے لوگ ( جو تن اور من سے بھی بھوکے ہو چکے ہیں ) سچے دل سے اپنے رب سے معافی اور روشن خیالی کو ٹھوکر نہ ماردیں تب تک بھونچال آنے سے رہا ۔

ہفتہ، 29 جولائی، 2006

مان کے ہی نہیں رہتے

شیدا ٹلی سے میری ملاقات سعید چائے والے کے ہوٹل میں ہوئی تھی۔بڑا خوش تھا۔پوچھنے پر کہنے لگا۔لگی بھئی لگی، میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا، کیا مطلب شیدے ، کچھ پلے نہیں پڑا،کس کو لگی اور کیا لگی ، کہاں کی ہانکے جا رہا شیدے یار۔
وہ جو انٹر نیٹ پر تیری الفاظوں کی مارا ماری ہے نا ،اُس کی بات سوچ رہا تھا کہ سچی بات کی چھبن ضرور ہووے ہے۔
وہ تو ہے یار شیدے ، پر تجھے کیسے پتہ چلا۔
ارے جانی پتہ کیسے نہیں چلے گا تو کیا جانے ہے ارے ساری نظر ہے۔
کس پر؟
ارے جانے دے اور سن ، یہ جو ہووئیں ہیں نا ، یہ تکیہ کرتے ہیں ، تو جتا جی چاہے کہتا رہ ، مان کے ہی نہیں رہتے۔

جمعہ، 28 جولائی، 2006

یہودیوں کے ہمنوا

ہمارے باہر کے رہنے والے بہت سے مسلمانوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جو باہر رہ کر اور زیادہ مسلمان ہو جاتے ہیں اور کچھ میں سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے مفاد کی خاطر ، جان و مال اور وہاں رہنے کی خاطر مسلمانی تو کیا سب کچھ بھول کر ان کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔اس کی مثال ہماری اردو کیمونٹی میں دیکھنے کو عام ملتی ہے۔اس کیمونٹی میں سے کرتا دھرتا دو کردار ایسے ہیں جو سرعام یہودیوں کو اچھا بھی کہتے ہیں اور انہیں سپورٹ بھی کرتے ہیں اور روشن خیالی ( جس کو میں جدید دہریت کہتا ہوں ) میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک کردار آج کل لبنان کی صورتحال کو دیکھ کر بڑھ چڑھ کر اسرائیل کے حق میں چنگھاڑ رہا ہے۔لبنان میں جب بچوں پر گولہ بارود گرتا ہے تو اس کی چنگھاڑ میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔مردوں کو مردہ بنایا جا رہا ہے تو اس کی تحریروں اسرائیل کے حق میں اور مٹھاس شامل ہوتی جارہی ہے۔

آج کی چنگھاڑ میں تو اس کے منہہ سے خون نکلتے بھی دیکھا گیا ہے۔القاعدہ کی ایک خبر پر تو لگا جیسے اس کو دورہ سا پڑ گیا ہو فوراً ہی اس نے ایک تحریر زہر میں بجھی ہوئی اپنے آقا اسرائیل کے حق میں لکھ ماری ہے۔اُس کی اس چنگھاڑ کو دیکھ کر مجھے خاص حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ حزب اللہ ایک شعیہ تنظیم ہے اور اگر ایک شعیہ ہی اُس پر چنگھاڑے تو حیرت کے جھٹکے لگنا ایک فطری عمل ہے۔مگر شاید اس روشن خیال کو بھی ابھی باہر کے ملک رہنا ہے اور باہر والوں کا تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ انہیں اپنے مذہب سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔

جمعرات، 20 جولائی، 2006

میں نے دو کُتے پال لئے

لوگ کہتے تھے شیخو روشن خیال نہیں ہے ، لو جی آخر کار ہم نے بھی اس دنیا میں قدم رکھنے کا ارادہ کر ہی لیا۔اسی سلسلے میں ہم نے جو پہلا قدم اُٹھایا ہے وہ دو عدد کتوں کا پالنا ہے۔چونکہ مغربی ممالک میں کتوں سے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے اور یہی محبت پچھلے دنوں آپ سب نے بھی دیکھی ہو گی کہ ورلڈ کپ کے دوران کتوں کو یار لوگوں نے اپنے ملک کی ٹیم کی وردیاں تک پہنا دی اور اسے تمام دنیا میں خوب سراہا بھی گیا۔
سوچتا ہوں ہم پاکستانی بھی کتنے دقیانوسی ہیں کہ کتوں جیسی عظیم شخصیات کو ایویں ہی کتا کتا کرتے رہتے ہیں۔اور تو اور ہم نے کتا کہنے کو بھی گالی بنا لیا ہوا ہے ، شرم آنی چاہئے ہمیں ، مغرب والے کیا سوچیں گے ۔
ویسے تو کُتوں کی بہت سی نایاب نسلیں پوری دنیا میں موجود ہیں مگر جو بات پاکستانی کُتوں اور ہندوستانی کُتوں میں ہے اور کسی میں نہیں۔پاکستانی کتوں میں بگہیاڑ اور ڈبو کتے کی نسل کا توجواب ہی نہیں ہے۔یہ وہ نسل ہے جو انسان کو پھاڑ کھاتی ہے ، شاید اس وجہ سے کہ انسان کا انہیں کُتا کہنا پسند نہ آتا ہو۔
میں نے جن دو کُتوں کا انتخاب کیا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان میں یکساں پائے جاتے ہیں ان کی نسل کا نام گلیڑ ( گَل یَڑ ) ہے ، جنہیں ہم گلیوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کا نام دیتے ہیں۔یہ گلیڑ نسل بھی بڑی نایاب سی نسلوں میں سے ہے۔جب سے کُتوں کا وجود منظرِعام پر آیا تھا تب سے یہ نایاب نسل ہمارے پاکستان اور ہندوستان میں موجود ہے۔
ہندوستان سے جو گلیڑ کُتا میں نے منگوایا تھا ، اُس کے لانے والے کہتے ہیں کہ اِس گلیڑ کُتے کے خاندان میں واحد کتیا اُس کی ماں ہی تھی جو سب سے زیادہ خوبصورت تھی اور اسی وجہ سے اُس پر بہت سے کُتے فدا بھی تھے اور انہیں فدا ہونے والوں میں سے کسی ڈبو نسل کے کُتے کی یہ واحد اولاد ہے۔اِس کُتے کو لانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس گلیڑ کُتے کی بچپن سے ہی عادتیں ذرا وکھری ٹائپ کی تھیں۔گلیڑ نسل کا ہوتے ہوئے بھی اسے اپنی نسل کے کتے پسند نہیں آتے تھے۔باہر سے جو بھی کتا آتا تھا چاہے وہ کسی بھی نسل کا ہو یہ اُس کے آگے پیچھے دم ہلاتا نظر آتا تھا۔بچپن سے ہی اسے مندروں سے بھی خاص لگاؤ تھا جس کی وجہ سے اُس کی ماں بھی اس سے تنگ تھی۔کھوج لگانے پر پتہ یہ چلا تھا کہ ایک دفعہ مندر کے پروہتوں نے اُس کی ماں کے ساتھ زیادتی کی تھی جس کی وجہ سے اُس کو اپنے بیٹے کا مندروں میں جانا پسند نہیں تھا۔شائد وہ نہیں چاہتی ہو گی کہ اُس کے بیٹے کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو اُس کے ساتھ ہوا۔مگر یہ بھی عجیب کُتا تھا ، مجال ہے جو اپنی ماں کی مانی ہو۔اب یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کُتے کے ساتھ پروہتوں نے کیا برتاؤ کیا ہو گا۔

جاری ہے۔۔۔




Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...