جمعرات، 20 جولائی، 2006

میں نے دو کُتے پال لئے

لوگ کہتے تھے شیخو روشن خیال نہیں ہے ، لو جی آخر کار ہم نے بھی اس دنیا میں قدم رکھنے کا ارادہ کر ہی لیا۔اسی سلسلے میں ہم نے جو پہلا قدم اُٹھایا ہے وہ دو عدد کتوں کا پالنا ہے۔چونکہ مغربی ممالک میں کتوں سے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے اور یہی محبت پچھلے دنوں آپ سب نے بھی دیکھی ہو گی کہ ورلڈ کپ کے دوران کتوں کو یار لوگوں نے اپنے ملک کی ٹیم کی وردیاں تک پہنا دی اور اسے تمام دنیا میں خوب سراہا بھی گیا۔
سوچتا ہوں ہم پاکستانی بھی کتنے دقیانوسی ہیں کہ کتوں جیسی عظیم شخصیات کو ایویں ہی کتا کتا کرتے رہتے ہیں۔اور تو اور ہم نے کتا کہنے کو بھی گالی بنا لیا ہوا ہے ، شرم آنی چاہئے ہمیں ، مغرب والے کیا سوچیں گے ۔
ویسے تو کُتوں کی بہت سی نایاب نسلیں پوری دنیا میں موجود ہیں مگر جو بات پاکستانی کُتوں اور ہندوستانی کُتوں میں ہے اور کسی میں نہیں۔پاکستانی کتوں میں بگہیاڑ اور ڈبو کتے کی نسل کا توجواب ہی نہیں ہے۔یہ وہ نسل ہے جو انسان کو پھاڑ کھاتی ہے ، شاید اس وجہ سے کہ انسان کا انہیں کُتا کہنا پسند نہ آتا ہو۔
میں نے جن دو کُتوں کا انتخاب کیا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان میں یکساں پائے جاتے ہیں ان کی نسل کا نام گلیڑ ( گَل یَڑ ) ہے ، جنہیں ہم گلیوں میں پھرنے والے آوارہ کتوں کا نام دیتے ہیں۔یہ گلیڑ نسل بھی بڑی نایاب سی نسلوں میں سے ہے۔جب سے کُتوں کا وجود منظرِعام پر آیا تھا تب سے یہ نایاب نسل ہمارے پاکستان اور ہندوستان میں موجود ہے۔
ہندوستان سے جو گلیڑ کُتا میں نے منگوایا تھا ، اُس کے لانے والے کہتے ہیں کہ اِس گلیڑ کُتے کے خاندان میں واحد کتیا اُس کی ماں ہی تھی جو سب سے زیادہ خوبصورت تھی اور اسی وجہ سے اُس پر بہت سے کُتے فدا بھی تھے اور انہیں فدا ہونے والوں میں سے کسی ڈبو نسل کے کُتے کی یہ واحد اولاد ہے۔اِس کُتے کو لانے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی وجہ سے اس گلیڑ کُتے کی بچپن سے ہی عادتیں ذرا وکھری ٹائپ کی تھیں۔گلیڑ نسل کا ہوتے ہوئے بھی اسے اپنی نسل کے کتے پسند نہیں آتے تھے۔باہر سے جو بھی کتا آتا تھا چاہے وہ کسی بھی نسل کا ہو یہ اُس کے آگے پیچھے دم ہلاتا نظر آتا تھا۔بچپن سے ہی اسے مندروں سے بھی خاص لگاؤ تھا جس کی وجہ سے اُس کی ماں بھی اس سے تنگ تھی۔کھوج لگانے پر پتہ یہ چلا تھا کہ ایک دفعہ مندر کے پروہتوں نے اُس کی ماں کے ساتھ زیادتی کی تھی جس کی وجہ سے اُس کو اپنے بیٹے کا مندروں میں جانا پسند نہیں تھا۔شائد وہ نہیں چاہتی ہو گی کہ اُس کے بیٹے کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو اُس کے ساتھ ہوا۔مگر یہ بھی عجیب کُتا تھا ، مجال ہے جو اپنی ماں کی مانی ہو۔اب یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کُتے کے ساتھ پروہتوں نے کیا برتاؤ کیا ہو گا۔

جاری ہے۔۔۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...