ہفتہ، 29 جولائی، 2006

مان کے ہی نہیں رہتے

شیدا ٹلی سے میری ملاقات سعید چائے والے کے ہوٹل میں ہوئی تھی۔بڑا خوش تھا۔پوچھنے پر کہنے لگا۔لگی بھئی لگی، میں بڑا حیران ہوا اور پوچھا، کیا مطلب شیدے ، کچھ پلے نہیں پڑا،کس کو لگی اور کیا لگی ، کہاں کی ہانکے جا رہا شیدے یار۔
وہ جو انٹر نیٹ پر تیری الفاظوں کی مارا ماری ہے نا ،اُس کی بات سوچ رہا تھا کہ سچی بات کی چھبن ضرور ہووے ہے۔
وہ تو ہے یار شیدے ، پر تجھے کیسے پتہ چلا۔
ارے جانی پتہ کیسے نہیں چلے گا تو کیا جانے ہے ارے ساری نظر ہے۔
کس پر؟
ارے جانے دے اور سن ، یہ جو ہووئیں ہیں نا ، یہ تکیہ کرتے ہیں ، تو جتا جی چاہے کہتا رہ ، مان کے ہی نہیں رہتے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...