اتوار، 30 جولائی، 2006

بابے عیدو کی باتیں

بابا عیدو یوں تو شطرنج کی بساط پر بیٹھا اپنی دنیا میں مگن رہتا ہے مگر جب بھی بات کرتا ہے تو ہمیشہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ، کہنے لگا ، جب تک پاکستان میں لبنان کے حق میں بھرپور مظاہرے نہیں ہوتے دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں کبھی تیزی نہیں آئے گی۔ کیونکہ پاکستان ہی ایک ایسا واحد ملک ہے جہاں اسلامی تحریکیں گو کہ وہ جیسی بھی ہوں اسلام کے نام پر عوام کو تیزی سے حرکت میں لا کر مظاہرے کروا سکتی ہیں اور جب مظاہرے ہوں گے تو لامحالہ ان میں شدت بھی ہو گی اور اسی شدت میں خون خرابہ بھی ہو سکتا ہے۔اور جب یہی چیزیں میڈیا پر آئیں گی تو پوری دنیا خصوصاً اسلامی دنیا میں اس پر ردِ عمل بھی ہو گا اور یہ مظاہرے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں۔
بابا عیدو کہنے لگا اگر تم تھوڑا سا غور کرو تو تمہیں سہی اندازہ ہو گا کہ یہی سب چیزوں کو روکنے کئے لبنان پر حملہ کرنے سے پہلے اس پر بھر پور پلاننگ کی گئی تھی۔یہ پلاننگ اہل سننت کی میلاد کانفرنس سے شروع کی گئی۔وہاں بم دھماکہ کروا کر فرقہ واریت کو ھَوا دی گئی اور ابھی اس کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ عین لبنان کے حملے کے ابتدائی ایام میں ایک شعیہ عالم کو مروا دیا گیا تاکہ شعیہ اور سنی کو آپس میں لڑوا کر ان کو علحیدہ رکھا جا سکے۔
کہنے لگا ، ان مظاہروں کو روکنے کے لئے سب سے بڑی جو بساط بچھائی گئی وہ جان بوجھ کر حکومت کے خلاف باتوں کو ہوا دینے کا عمل شروع کر دیا گیا تاکہ سیاست دانوں اور تمام اسلامی تحریکوں کا دھیان اس طرف لگایا جاسکے۔اوراس کھیل میں بھرپور رنگ بھرنے کے لئے طافو بھائی ( الطاف بھائی ) کا کردار سب سے اہم تھا۔
بابا عیدو کی آخری بات مجھے اب بھی پریشان کر رہی ہے ، کہنے لگا ، ایران کی باری بھی بس آیا ہی چاہتی ہے ، بساط بچھا دی گئی ہے بس مہرے آگے کرنا باقی ہیں۔



ہمارے اردو راکٹ کے اس لوگو کو اپنی ویب سائٹ یا بلاگ کے کسی کونے کھدرے میں جگہ دے کر مشکور فرمائیں

اگر آپ ہمارے اردو راکٹ کا یہ لوگو اپنی ویب سائٹ یا بلاگ پر لگاتے ہیں تو ہم آپ کے انتہائی مشکور ہوں گے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...