آج سوچا تھا کہ کچھ لکھوں گا ، کیا دیکھتا ہوں کہ میرا پاکستان والے جناب افضل صاحب نے لاہور کے ایک ناظم میاں محمود کی ایک طوائف کے ساتھ تصویر کو موضوع سخن بنایا ہے۔
لکھتا بھی ، تو کیا لکھتا ، ساری سوچیں غائب ہوگئیں ، کبھی جناب افضل صاحب کی تلخ اور تیکھی تحریر کو پڑھتا اور کبھی ناظم میاں محمود کی تہذیب یافتہ انداز میں کھنچوائی تصویر کو دیکھا کیا۔
جناب افضل صاحب بھی بھولے بادشاہ ہیں ، باہر رہ کر وہ اسی پرانے پاکستان کی تصویر کو اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں جس کو کبھی وہ چھوڑ کے گئے تھے۔انہیں نہیں پتہ کہ پاکستان اب ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے نکل کر ترقی یافتہ اور روشن خیال ہو چکا ہے۔
سوچتا ہوں کہ اب جب وہ پاکستان آئے تو انہیں اپنے پاس بٹھا کر کیبل دکھاؤں گا جو ہر گھر میں چل رہی ہے۔جس پر روزانہ ننگے مجرے دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں۔دوپہر ہو یا رات کا کوئی پہر ، یہ ننگے مجرے سٹیج شو کے نام سے کیبل پر آپ کسی بھی وقت دیکھ سکتے ہیں ۔روشن خیالی کی روایات کو مدِ مظر رکھتے ہوئے رات کے آخری پہر ان مجروں میں کپڑوں کی پابندی ختم کر دی جاتی ہے۔
محترم افضل صاحب نے اس خبر کو بڑی گروانا ہے ، کہتے ہیں اس خبر کے چھپنے کے باوجود اگر ملک میں بھونچال نہ آسکا تو وہ سمجھیں گے کہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ عوام بھی ایسی ذلالتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔
کیا کریں عوام ؟ کس سے فریاد کریں ؟ کس عدالت میں فریاد کریں ؟
بھونچال کون لائے گا ، جن کے پاس کھانے کو نہیں ؟
بھونچال کون لائے گا ، وہ جو صرف فتویٰ دینا جانتے ہیں
بھونچال کون لائے گا ، جو خود اسٹیج پر بیٹھ کر مجرا دیکھتے ہیں ؟
وہ زمانے لَد گئے جب چیخ و پکار سے بھونچال آیا کرتے تھے۔
ایسے نہیں آنے کا بھونچال ،
جب تک بھوکے ننگے لوگ ( جو تن اور من سے بھی بھوکے ہو چکے ہیں ) سچے دل سے اپنے رب سے معافی اور روشن خیالی کو ٹھوکر نہ ماردیں تب تک بھونچال آنے سے رہا ۔
شیخو بلاگ میں تازہ نیوز ، ذاتی حالات زندگی ، معاشرتی پہلو اور تازہ ٹیکنیکل نیوز کے متعلق لکھا جاتا ہے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Featured Post
جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...

-
یہ تین عدد خصوصی کتابیں میرے کہنے پر اردو ہوم کی سائٹ پر ڈالی گئی ہیں۔اصل میں ، میں جب بھی اپنے اآج کل کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھتا ...
-
توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے، خدا جانے توں ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے، خدا جانے خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سکدا چمن آب...
-
میرا یہ مضمون آپ اردو نیوز پر بھی پڑھ سکتے ہیں جب الیکشن ٢٠٠٨ کی بازگشت شروع ہوئی تھی تو ساتھ ہی میاں نواز شریف کی آمد کا بگل بھی بجنا شروع...
sab thath para reh ja ae ga, jab lath chale ga banjara
جواب دیںحذف کریں