جمعرات، 23 نومبر، 2006

میرے للو کی باتیں

لَلو ، ابے او لًلو ، اگر بازار جاوے گا تو ذرا سبزی تو پکڑتے لانا۔
صاحب جی آج کیا پکاویں گے ؟
ارے پکانا کیا ہے جو تجھے سب سے سستی ملے ، وہ لے آ ، بس کھا لیویں گے۔
پر صاحب جی آج کل بینگن بھی ٢٠ روپے کلو بکے ہیں اس سے سستا کیا ہووے گا اور کل وہ سبزی والا بھی کہہ رہا تھا کہ اپنے صاحب سے کہیو کہ کلو دو کلو پیاز خرید کر رکھ لیویں ، آج چالیس کا ریٹ ہے کل پچاس میں ہوویں گا۔
دفعہ کر سالے کو ، وہ تو یوں ہی ڈراوے ہے ، تو بس کوئی بھی لے آ ، بس ہووے سستی سی ۔ اچھا ایک بات تو بتا لًلوے ، تیرے سے اس لئے پوچھوں کہ تو پڑھا لکھا نہیں ہے اگر پڑھا لکھا ہوتا تو ، تو بھی اسمبلیوں میں بیٹھا ہوتا۔اور سیاسی بیان دیتا،
ہاں تو بتا للوے ، یہ روز روز غریبوں کی چیزیں ہی کیوں مہنگی ہوویں ۔روزانہ ہی سننے میں آوے ہے کہ ، چینی مہنگی ہو گئی ، دال مہنگی ہوگئی ،سبزی ہے تو وہ مرغے سے بھی مہنگی بکے ہے یہ سب کیا ہے للوے ؟
صاحب جی یہ سب وزیروں مشیروں کا گورکھ دھندا ہے ۔ فیکٹریاں ان کے پاس ہیں ، آڑھت پر ان کا قبضہ ہے جب ان کا جی چاہتا ہے وہ چیزیں مہنگی کر دیتے ہیں۔
مگر للوے یار وہ اپنا صدر صاحب بھی تو بیٹھا ہے نا وہ ان کی کیوں پکڑ نہیں کرتا؟
صاحب جی نام تو میرا للو ہے مگر آپ بھی کم نہیں لگے ہو۔
صاحب جی اگر وہ پکڑ کرے گا تو اپنی کرسی کیسے چلاوے گا۔
مگر للوے یار ، استاد شیدا تو کہوے ہے کہ کرسی تو امریکہ چلائے ہے ، وہ بھی تو تیری طرح پڑھا لکھا نہیں ہے نا تو پھر اس کی بات تو جھوٹ نہ ہووے
صاحب جی شیدا جو جی چاہے کہتا روے مگر میں تو یہ کہوں کہ اگر اس نے ان کا دانہ پانی بند کیا تو جانو یہ سارے مل کے اس کا بھی بند کر دیویں گے۔
مگر یار للوے اس چکر میں دانہ پانی اپنے پہ تو بھاری ہو گیا نا۔
تو ہوا کرے صاحب جی ، ویسے بھی غریبوں کے مرنے سے کونسا فرق پڑے ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...