جمعہ، 28 دسمبر، 2012

اپنے کئے پر پانی بہا کر جائیں

یہ تو لکھی پڑھی اور مشاہدے کی بات ہے کہ ہر انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے اور یہ بھی ہے کہ فطرت کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنی فطرتی چیزوں سے فرار بھی ممکن نہیں ہے۔جیسا کہ رفع حاجت کا ہونا وغیرہ

رفع حاجت ایک خوبصورت لفظ ہے ۔اس کے سننے سے انسان کو غلاظت کا کم احساس ہوتا ہے۔اگر یہی ہم رفع حاجت کو لیٹرین کہیں تو ذرا تھوڑا زیادہ غلاظت کا احساس ہو گا۔اور اگر یہی ہم اسے پاخانہ کہہ کر پکاریں تو غلاظت کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے ۔اور اگر اس سے تھوڑا اور آگے بڑھ جائیں یعنی ہم رفع حاجت کو ٹٹی کہہ دیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی بہت غلیظ شے کا نام لے لیا۔۔۔بلکہ ٹٹی کہنے کے ساتھ ساتھ انسان کا منہہ بھی برا سا بن جاتا ہے۔اور اگر یہی کوئی پنڈ کا بچہ سارے شہری مہمانوں کے بیچ اُٹھ کر کہہ دے کہ امی مینوں ٹٹی آئی اے ( امی مجھے لیٹرین آئی ہے ) تو سب کے منہہ ایسے بن جائیں گے جیسے وہ بچہ ان کے منہہ پر پاخانہ کرنے کا کہہ رہا ہو ۔

جیسا میں نے پہلے کہا کہ انسان کی فطرت دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے ۔اور دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ کچھ لوگوں کی فطرت بالکل بھی نہیں بدلتی چاہے وہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں ۔بچپن سے ہی اگر ایک ماں اپنے بچے کی تربیت صحیح انداز سے کرے ،اس کی تعلیم و تربیت پر صحیح توجہ دے اور اس کی عادتوں کو صحیح رخ پر استوار کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بچہ معاشرے کا ایک اچھا شہری نہ بن سکے جس سے لوگوں کا فائدہ حاصل ہو اور وہ اپنی عادتوں سے کسی کے لئے پریشانی کا باعث نہ بن سکے۔

پبلک لیٹرین ہوں یا کہ گھریلو لیٹرین ۔۔۔ بہت سے لوگوں کو جن میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے میں دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ لیٹرین میں رفع حاجت کے بعد پانی بہانا تک گوارا نہیں کرتے ۔کچھ لوگ تو ایسی بڑی بڑی پھواریں مارتے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس انسان کے اپنے پیر وغیرہ کیسے غلاظت سے بچائے ہوں گے ۔بندہ جوں ہی لیٹرین میں جاتا ہے تو آٹھ دن پہلے کا کھایا گیا کھانا بھی باہر نکل جاتا ہے ۔ایسی گندی بو ، ایسی غلاظت ۔۔ایسی ایسی پھواریں ۔۔دکھائی یوں دیتا ہے ۔جیسا کہ کسی بہترین مصور نے لیٹرین کی پچھلی دیوار پر تجریدی آرٹ بنا رکھا ہو ۔

پاکی کا خیال رکھنا نصف ایمان ہے ۔اور ویسے بھی پاک صاف رہنا انسان کی صحت کے لئے بہتر ہوتا ہے ۔اگر یہی آپ اپنی لیٹرین کو صحیح انداز سے کریں گے اور پھر اسے اچھی طرح اپنی پیٹھ سے دھوئیں گے تو آپ کو بواسیر بھی کبھی نہیں ہو گی ۔بواسیر کا مرض سب سے زیادہ انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنے پاخانے کو اپنی پیٹھ سے صحیح ظریقے سے صاٍف نہیں کرتے ۔

اپنا پاخانہ اپنی پیٹھ سے صاف کرنے کے بعد اپنے پاؤں اور اپنے ہاتھ اچھی طرح دیکھیں اور اسے صاف کریں ۔اس کے بعد جہاں بیٹھ کر آپ نے پاخانہ کیا تھا اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے تمام کئے دھرے پر خوب پانی بہا کر باہر نکلیں ۔تاکہ بعد میں آنے والے انسان آپ کو برا بھلا نہ کہہ سکیں ۔

11 تبصرے:

  1. بہت خوب آگہی سے بھر پور تحریر۔۔۔۔ بہت ہی عمدہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت زبردست۔
    ہمیں ان مسائل سے لوگوں کو اگاہ کرنا چاہئے۔اپنی گندگی خود نہیں صاف کروگے تو کون صاف کرئے گا۔

    اگر ہر بندہ اپنے حصے کی صفائی کرئے تو شائد ہی پھر کہیں گندگی پہیل جائے

    جواب دیںحذف کریں
  3. محترم نیرنگ خیال جی آپ کی پسندیدگی کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم خراسانی صاحب بجا فرمایا آپ نے۔۔مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ کا کھلا ڈلّا بلاگ پڑھا۔ اچھا لگا۔
    لوگوں میں یہ عجیب بات ھے کہ وہ پاخانے کو اتنا ناپاک جانتے ھیں کہ لٹرین کی مت مارنے کے بعد اس کو دھونے سے ان کو شدید کراھت آتی ھے۔ حقیقت یہ ھے کہ کسی بھی ٹوائلٹ میں گھسنے کے فوراً بعد آپ سے پہلے گئے صاحب اور ان کی تربیت کرنے والوں کی شان میں یا تو گالیاں نکلتی ھیں یا پھر دعائیں۔
    جہاں تک آپ نے بواسیر والی بات کی، وہ غلط اور بے بنیاد ھے۔ مغربی اور مشرقی عوام کس قدر استنجا کرتے ھیں، وہ سب کو معلوم ھے۔ اگر ایسی باتوں پر بواسیر ھونے لگے تو ٹشو استعمال کرنے والی ساری اقوام کی مت بچی ھوتی۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. محترم کاشف برادر
    آپ کے تبصرے اور پسندیدگی کا بے حد شکریہ
    بواسیر والی بات پر پھر کبھی روشنی ڈالوں گا
    آپ کے بلاگ کا بھی دورہ کیا مزا آیا پڑھ کر۔۔ابھی مکمل نہیں پڑھا۔۔فارغ وقت میں پڑھتا ہوں تو ضرور کچھ کہوں گا

    جواب دیںحذف کریں
  7. تبصرہ سے قبل ایک عرض ۔ گو کہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسلام آباد سے لاہور کا سفر جنوری میں کر پاؤں گا یا نہین لیکن اللہ توفیق دے تو ہو بھی سکتا ہے ۔ جناب آپ جنوری کے آخر میں جو مجمع لگا رہے ہیں اس میں ہمارے جسم کو بھی گوارہ فرمائین گے یا نہیں ؟
    آج آپ نے میرے بلاگ پر تبصرہ کیا تو میں نے سوچا آپ کا محلِ وقوع دریافت کیا جائے ۔ آپ کی یہ تحریر پڑھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کہیں میں خواب میں اپنا لکھا ہی تو نہیں پڑھ رہا ۔ ہماری قوم کے تنزل کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حقائق سے رو گردانی کرتی ہے ۔ ذہن اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ گندی یا بُری چیز کا انگریزی ترجمہ بول کر سمجھتے ہیں کہ وہ خوبصوت اور صاف ستھری ہو گئی ہے ۔ اپنے جسم کی بدبُو پر پردہ ڈالنے کیلئے دوسروں مین کیڑے ڈال رہے ہوتے ہیں
    اللہ مجھے درست راہ پر گامزن کرے

    جواب دیںحذف کریں
  8. محترم افتخار اجمل بھوپال صاحب
    سب سے پہلے تو آپ کا تہہ دل سے شکریہ کہ آپ مجھ ناچیز کے بلاگ پر تشریف لائے اور اپنے خوبصورت تبصرے سے ہمیں مستفید فرمایا۔
    اصل میں میں بہت عرصہ سے بلاگ کی دنیا پر غیر فعال رہا ہوں مگر میں آپ سب محترم ہستیوں کی تحریروں سے کبھی دور بھی نہیں رہا۔
    اسلام آباد میں محترم شاکرالقادری کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں نہ جانے کا مجھے افسوس رہے گا۔اس تقریب میں نہ جانے کی وجہ سے میں آپ جیسی محترم ہستیوں سے ملاقات نہ کر سکا۔حالانکہ میرا ارادہ بھرپور تھا۔مگر قسمت اور دانہ پانی کو کوئی نہیں بدل سکتا۔
    محترم۔۔۔ لاہور میں اردو بلاگرز کی کانفرنس کروانے میں میرا کوئی کردار نہیں ہے۔یہ محسن عباس صاحب ہیں جو کہ ذاتی طور پر یا کہ ڈان گروپ آف کمپنیز کی جانب سے یہ تقریب منعقد کروا رہے ہیں۔جس کی تفصیل آپ نیچے دئے گئے لنک سے پڑھ سکتے ہیں


    انشااللہ ہم جب کروائیں گے تو آپ محترم ہستیوں کی اجازت سے ہی کروائیں گے۔
    اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے اور ہمیشہ صحت والی زندگی سے نوازے۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
  9. السلام علیکم۔ آپ کا بلاگ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ آپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا

    جواب دیںحذف کریں
  10. اس ناچیز کے بلاگ پر آپ کی تشریف آوری اور تبصرے کا شکریہ
    محترم میں کیا کسی کو سکھاؤن گا۔میں ابھی خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...