کتوں کی پچاس سے زیادہ مقبول نسلیں ہیں ۔۔۔ جن میں جرمن شیفرڈ ، بیلجئیم شیفرڈ ، شیفرڈ سکاٹش ، پوائینٹر، افغان ہاؤنڈ ، اکیتا ہاؤنڈ ، بیگل ، باکسر، بلڈاگ ، فرانسیسی بلڈاگ ، بل ٹیریر - چیوہاؤ ، سکیں سکیں ، کوکر ، فاکس ٹیریر ،گولڈن ،ہسکی سائبیرین ، لیبرے ڈار ، مالٹی ، نیپولٹن ، سان برنارڈو ، سیٹر - آئرش سیٹر ، سکاٹش ٹیریر ، ویلش ٹیریر ، یارکشائر ٹیریر ۔۔۔۔ مقبول ترین ہیں
ان کتوں سے انسانوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر کتے کا روزانہ کا خرچہ پاکستان کے ایک ہزار غریب آدمیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور اگر آپ ان کتے کی نسلوں سے انسان کے پیار کا اندازہ لگانا اور ساتھ ہی اس کا نظارہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے بیڈ رومز میں جا کر کر سکتے ہیں ۔
میری ذاتی تحقیق کے مطابق کتوں کی ان عظیم نسلوں میں سے کسی انسان کو میں نے ایسا نہیں دیکھا جو کہ ان کتوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی تحقیر محسوس کرتا ہو ۔ہاں یہ ضرور ہے اور اس بارے میں بھی ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ خود اعلیٰ نسل کے ان کتوں میں سے کسی کتے یا کتے کے بچے کو انسان کے ساتھ بیٹھنا یا میل ملاپ رکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔
کتوں کی ان عظیم نسلوں کے علاوہ ایک عظیم اور قدیم نسل اور بھی ہے جسے میں ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گل یڑ ) ۔( گلی کے آوارہ کتے ) کہتا ہوں ۔اسی نسل کو سب سے زیادہ ٹھڈے ، جوتے اور ڈنڈے بھی پڑتے ہیں اور گالیوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں ۔۔۔مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی جب آپ اس کو روٹی کا ٹکڑا دیتے ہیں تو اس نسل یعنی ‘‘ گلیڑ ‘‘ کتے کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آپ صاف دیکھ سکتے ہیں ۔
کتوں کی اتنی عظیم نسلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر کسی سیانے نے ‘‘ کتوں جیسی بے عزتی ‘‘ کا محاورہ ایجاد کر ہی دیا تھا تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تو ہوگی ۔اور جب یہ محاورہ ایجاد ہو ہی گیا تو لاگو بھی ہو گا اور جب لاگو ہوگا تو محسوس بھی ہوگا۔۔۔۔۔ مگر سیانوں کی باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور سیانے کہتے ہیں ۔ ‘‘ سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو گے اتنی زیادہ لگے گی ‘‘ ۔
کتے تو پھر کتے ہیں ان کو کیا کہنا ۔۔۔۔ انسانوں کی بات کیجئے جی ۔۔۔کیونکہ انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے مگر کتا انسان نہیں بن سکتا ۔
ایک اچھوتے موضوع پر زبردست تحریر۔
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ نجیب بھائی! بہت ہی اعلیٰ تحریر ہے۔۔۔ زبردست
جواب دیںحذف کریںوہ پنجابی کا ایک لفظ ہے "Thought Provoking" یہ تحریر اس پر پورا اترتی ہے
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ سرکار
آپ کی تحقیق قابل َقدر اور اندازَ بیاں پُرمغز ہے ۔
جواب دیںحذف کریںہم انسان سوچنے سمجھنے اور پھر لفظ سے اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر کتوں کو ایک پل کے لیے یہ صلاحیت مل جائے تو وہ آپ کا بلاگ پڑھ کر یہ ضرور کہیں گے کہ ہم کتے ہی بھلے، اور انسان کو کتا کہنا انسان سے زیادہ ہماری توہین ہے ۔ کبھی کسی کتے نے اپنے جیسے کتے کا کوشت نہیں کھایا ہو گا ۔انسان کی حالیہ درندگی اور وحشت کے سامنے یہ بہت ہی معمولی سی مثال ہے ۔
میںنے پڑھا تھا " بیماری ،سردی اور غریبی کو جتنا محسوس کیا جائے اُتنی ہی لگتی ہے "
آپ کی محبتیں اور عنائتیں ہیں ۔۔۔ آپ کی پسندیدگی کا بہت شکریہ بھائی جی
جواب دیںحذف کریںبہت محبت اور عنائت بھائی جی ۔۔آپ بھی کچھ کم نہیں لکھتے ۔۔۔ پسندیدگی کا بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںرانجھا جی ،،، بے حد شکریہ آپ کا ۔۔
جواب دیںحذف کریںپہلی بار بلاگ پر آئے ہیں ۔۔۔ بولیں کیا خدمت کریں آپ کی
:razz:
آپ کے بلاگ پر آنے اور پسندیدگی کا بے حد شکریہ
جواب دیںحذف کریںآپ نے صحیح پڑھا ہے ۔۔ کیونکہ احساس کی بات ہے ۔ جتنے زیادہ جو چیز محسوس کی جائے گی اس کا احساس بھی اتنا بڑحتا چلا جائے گا