منگل، 26 نومبر، 2013

انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے

1tکہتے ہیں کتے اور انسان کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور کہتے یہ بھی ہیں کہ جہاں انسان ہوتا ہے وہاں کتا بھی پایا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ جہاں کتا ہو وہاں انسان کا پایا جانا لازم نہیں ہے ۔جیسا کہ سننے میں آتا ہے انسان اور کتے کا صدیوں پرانا ساتھ ہے اور اب صدیوں میں دونوں نے ایک دوسرے سے کیا کیا سیکھا اس کے بارے میں تحقیق ہونا ابھی باقی ہے ۔۔کتے کے ‘‘ کتے پن ‘‘ پر تو تحقیق کرنا انتہائی آسان ہے مگر اس عرصہ میں انسان پر کتنا ‘‘ کتا پن ‘‘ چڑھا ، اس پر تحقیق کرنا از حد ضروری ہے ۔

کتوں کی پچاس سے زیادہ مقبول نسلیں ہیں ۔۔۔ جن میں جرمن شیفرڈ ، بیلجئیم شیفرڈ ، شیفرڈ سکاٹش ، پوائینٹر، افغان ہاؤنڈ ، اکیتا ہاؤنڈ ، بیگل ، باکسر، بلڈاگ ، فرانسیسی بلڈاگ ، بل ٹیریر - چیوہاؤ ، سکیں سکیں ، کوکر ، فاکس ٹیریر ،گولڈن ،ہسکی سائبیرین ، لیبرے ڈار ، مالٹی ، نیپولٹن ، سان برنارڈو ، سیٹر - آئرش سیٹر ، سکاٹش ٹیریر ، ویلش ٹیریر ، یارکشائر ٹیریر ۔۔۔۔ مقبول ترین ہیں

ان کتوں سے انسانوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے ہر کتے کا روزانہ کا خرچہ پاکستان کے ایک ہزار غریب آدمیوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔اور اگر آپ ان کتے کی نسلوں سے انسان کے پیار کا اندازہ لگانا اور ساتھ ہی اس کا نظارہ بھی کرنا چاہیں تو ان کے بیڈ رومز میں جا کر کر سکتے ہیں ۔

میری ذاتی تحقیق کے مطابق کتوں کی ان عظیم نسلوں میں سے کسی انسان کو میں نے ایسا نہیں دیکھا جو کہ ان کتوں کے ساتھ بیٹھنے میں اپنی تحقیر محسوس کرتا ہو ۔ہاں یہ ضرور ہے اور اس بارے میں بھی ابھی تحقیق ہونا باقی ہے کہ خود اعلیٰ نسل کے ان کتوں میں سے کسی کتے یا کتے کے بچے کو انسان کے ساتھ بیٹھنا یا میل ملاپ رکھنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔

کتوں کی ان عظیم نسلوں کے علاوہ ایک عظیم اور قدیم نسل اور بھی ہے جسے میں ‘‘ گلیڑ ‘‘ ( گل یڑ ) ۔( گلی کے آوارہ کتے ) کہتا ہوں ۔اسی نسل کو سب سے زیادہ ٹھڈے ، جوتے اور ڈنڈے بھی پڑتے ہیں اور گالیوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں ۔۔۔مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی جب آپ اس کو روٹی کا ٹکڑا دیتے ہیں تو اس نسل یعنی ‘‘ گلیڑ ‘‘ کتے کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو آپ صاف دیکھ سکتے ہیں ۔

کتوں کی اتنی عظیم نسلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر کسی سیانے نے ‘‘ کتوں جیسی بے عزتی ‘‘ کا محاورہ ایجاد کر ہی دیا تھا تو یقیناً اس میں کوئی نہ کوئی حکمت تو ہوگی ۔اور جب یہ محاورہ ایجاد ہو ہی گیا تو لاگو بھی ہو گا اور جب لاگو ہوگا تو محسوس بھی ہوگا۔۔۔۔۔ مگر سیانوں کی باتوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور سیانے کہتے ہیں ۔ ‘‘ سردی اور بے عزتی جتنی محسوس کرو گے اتنی زیادہ لگے گی ‘‘ ۔

کتے تو پھر کتے ہیں ان کو کیا کہنا ۔۔۔۔ انسانوں کی بات کیجئے جی ۔۔۔کیونکہ انسان کسی بھی وقت کتا بن سکتا ہے مگر کتا انسان نہیں بن سکتا ۔



8 تبصرے:

  1. ایک اچھوتے موضوع پر زبردست تحریر۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت عمدہ نجیب بھائی! بہت ہی اعلیٰ تحریر ہے۔۔۔ زبردست

    جواب دیںحذف کریں
  3. حسیب نذیر گِل26 نومبر، 2013 کو 11:02 AM

    وہ پنجابی کا ایک لفظ ہے "Thought Provoking" یہ تحریر اس پر پورا اترتی ہے
    بہت عمدہ سرکار

    جواب دیںحذف کریں
  4. آپ کی تحقیق قابل َقدر اور اندازَ بیاں پُرمغز ہے ۔
    ہم انسان سوچنے سمجھنے اور پھر لفظ سے اظہار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر کتوں کو ایک پل کے لیے یہ صلاحیت مل جائے تو وہ آپ کا بلاگ پڑھ کر یہ ضرور کہیں گے کہ ہم کتے ہی بھلے، اور انسان کو کتا کہنا انسان سے زیادہ ہماری توہین ہے ۔ کبھی کسی کتے نے اپنے جیسے کتے کا کوشت نہیں‌ کھایا ہو گا ۔انسان کی حالیہ درندگی اور وحشت کے سامنے یہ بہت ہی معمولی سی مثال ہے ۔
    میں‌نے پڑھا تھا " بیماری ،سردی اور غریبی کو جتنا محسوس کیا جائے اُتنی ہی لگتی ہے "

    جواب دیںحذف کریں
  5. آپ کی محبتیں اور عنائتیں ہیں ۔۔۔ آپ کی پسندیدگی کا بہت شکریہ بھائی جی

    جواب دیںحذف کریں
  6. بہت محبت اور عنائت بھائی جی ۔۔آپ بھی کچھ کم نہیں لکھتے ۔۔۔ پسندیدگی کا بہت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. رانجھا جی ،،، بے حد شکریہ آپ کا ۔۔
    پہلی بار بلاگ پر آئے ہیں ۔۔۔ بولیں کیا خدمت کریں آپ کی
    :razz:

    جواب دیںحذف کریں
  8. آپ کے بلاگ پر آنے اور پسندیدگی کا بے حد شکریہ
    آپ نے صحیح پڑھا ہے ۔۔ کیونکہ احساس کی بات ہے ۔ جتنے زیادہ جو چیز محسوس کی جائے گی اس کا احساس بھی اتنا بڑحتا چلا جائے گا

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...