پاک میڈیا و اخبارات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاک میڈیا و اخبارات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 26 مئی، 2014

شورہ ۔۔۔۔ شوربہ نہیں بن سکتا




شورہ پنجابی زبان کا لفظ ہے ۔آپ اس لفظ کو پنجابی کی گالی بھی کہہ سکتے ہیں۔ہمارے لاہوریوں میں یہ گالی کثرت سے نکالی جاتی ہے ۔یعنی اگر کوئی شخص گندہ ، غلیظ ہو یا کہ اس کی عادتیں غلیظ ہوں اس کو عموماً ‘‘ شورہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔کچھ لوگ لڑکیوں کے دلال جسے عرف عام میں پنجابی زبان میں ‘‘ دلا ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔۔ کو بھی شورہ کہتے ہیں ۔۔۔۔
ضروری نہیں کہ دلال کو ہی شورہ کہا جاتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو بغل میں چھری منہہ میں رام رام کی مالا جپتے نظر آتے ہیں ۔۔یعنی منافق کو۔۔۔ کو بھی لاہوری ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارتے ہیں ۔
ایک آدمی میں بہت سی بری عادتیں جمع ہوں اور اس کی حرکتیں بھی گندی ہوں جو کہ اس کے قول فعل سے ظاہر بھی ہوتی ہوں تو اسے بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کہتے ہیں ۔


کچھ ایسے لوگوں کو بھی ‘‘ شورہ ‘‘ کا لقب دیا جاتا ہے جن کو عزت راس نہ آئے ۔۔ یعنی کہ ان کی عزت کی جائے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہیں ۔ ۔۔ اس لئے انہیں شورہ کا لقب دیا جاتا ہے اور انہیں جتایا جاتا ہے کہ تم شورے ہی رہو گے شوربے نہیں بن سکتے ۔


اب ‘‘ شورے ‘‘ اور ‘‘ شوربے ‘‘ میں کیا فرق ہے ۔کسی بھی سالن میں پانی میں مرچ مصالحے ڈال شوربہ تیار کیا جاسکتا ہے ۔پتلے اور زیادہ شوربے کے لئے زیادہ پانی اور گاڑھے شوربے کے لئے مصالحہ جات کے ساتھ کم پانی استمال کر کے شوربہ بنایا جاتا ہے۔


اسی طرح ‘‘ شورہ ‘‘ معاشرے کے مصالحہ جات سے پک کر تیار ہوتا ہے ۔اس کی ابیاری اس کے گھر سے ہوتی ہے ۔بعد ازاں اس میں تمام بری عادتیں ڈال کر اس کو پکایا جاتا ہے تب جاکر اسے اس عظیم نام ‘‘ شورہ ‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔


اسی طرح پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی اپنی بولی اور مزاج کے حساب سے مختلف الفاظ رائج ہیں ۔ جو کہ اپنے آپ میں معنی خیز ہوتے ہوئے ایک پوری تاریخ رکھتے ہیں ۔اسی طرح لفظ ‘‘ شورے ‘‘ کی بھی اپنی ایک تاریخ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد تقریباً ١٩٥٠ میں پہلی دفعہ یہ لفظ ‘‘ شاہی محلے ‘‘ میں ‘‘ استاد فیقے ‘‘ نے بولا تھا۔کنجروں کے مستند زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ استاد فیقے کی معشوقہ ایک دن کوٹھے پر ڈانس کے لئے نہیں آئی تو اس کے دلال کو استاد فیقے نے ‘‘ شورے ‘‘ کے الفاظ سے پکارا تھا ۔۔۔ صحیح الفاظ کے بارے میں کوئی سند تو نہیں مل سکی البتہ تاریخ ( بڑے بوڑھوں کی زبانی تاریخ ) میں جو الفاظ ملتے ہیں وہ کچھ یوں تھے‘‘‘‘‘ اوئے شورے اج ننھی مجرے تے نہی آئی ‘‘‘‘

اردو بلاگرز اور میڈیائی مفتے



الیکشن سے چند مہینے پہلے سے لے کر آج سے چند ہفتوں پہلے تک سوشل میڈیا پر جہاں گندے سیاستدانوں کی مٹی پلید کی گئی وہاں ٹی وی میڈیا کے غلط اقدامات پر اسے بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ۔اب لگام تو ڈالنی ہی تھی نا ان لوگوں کو ۔۔۔ سو مفت کا دانہ ڈال کر ابتدا کر دی گئی ۔
یہ بھی یاد رہے کہ میڈیائی مفتوں نے دھڑلے سے اردو بلاگروں کی تحریریں چوری کر کے اپنے اخباروں میں بغیر ویب سائٹ کا لنک دئے چھاپی ہیں ۔ پتہ چلنے پر بغیر کوئی معذرت کئے بلاگروں کو مفتے کا لولی پاپ دے کر خوش کیا جارہا ہے ۔اور اردو بلاگرز بھی ایسے بھولے بادشاہ اور جذباتی ہیں کہ بس نہ پوچھیں ۔۔۔۔  اگر اپنے یہ محترم بلاگرز میڈیا خصوصاً ٹی وی اور اخبارات کے حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے تو یوں تالیاں نہ پیٹ رہے ہوتے ۔

اردو بلاگرز کا مشہور ہونا اچھی بات ہے ۔ان کو پیسے ملنا اور بھی اچھی بلکہ خوشی کی بات ہے ۔۔۔۔ کروڑوں روپے روزانہ کمانے والے میڈیائی مفتے اگر بلاگروں کو ان کی تحریروں کا مناسب معاوضہ دیتے ہیں تو ان کے لئے لکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔

اب یہاں ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ بلاگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے ۔
اب ایک بلاگر کے کسی بھی روزنامے پر لکھنے سے کیا ہوگا ۔۔۔۔بس یہی ہوگا کہ ان کی تحریریں ایک خاص انداز اور نظم و ضبط کے اندر چھپنے کی وجہ سے یہ بلاگر کی پہچان کھو بیٹھیں گی ۔کیونہ یہ تجارتی بنیادوں پر لکھیں گے اور تجارتی بنیادوں پر لکھنے والا اپنے آقا کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند ہوتا ہے ۔۔۔ سو اسے پابندی تو کرنی پڑے گی ۔
بلاگر وہی رہے گا اور کہلائے گا جس کی تحریر میں اس کی سوچ اور آزادی کا پر تو ہوگا

ہفتہ، 11 مئی، 2013

اس دفعہ حکومت مسلم لیگ نواز کی ہو گی ۔۔ ہمارے موکلوں کا دعوٰی

پاکستان میں قومی الیکشن 2013 کی پولنگ شروع ہونے میں پانچ گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ایسے میں ہمارے موکلوں نے آخری پیشگوئی کر دی ہے ۔ موکلوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون 120 سے زائد سیٹیں لے کر ہمدردوں کے ساتھ حکومت بنائے گی ۔
پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں ہمارے موکلوں کا کہنا تھا کہ اسے 20 سے 25 سیٹیں مل سکتی ہیں ۔۔۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں ہمارے موکلوں نے 40 سے 50 سیٹیوں کی پیشگوئی کی ہے

ہم نے موکلوں کے روحانی پیشوا بابے عیدو سے جب موکلوں کی اس پیشگوئی بارے رائے پوچھی تو وہ گم سم سے نظر آئے ۔ ان کا بس یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے رائے محفوظ رکھتے ہیں



اتوار، 28 اپریل، 2013

اردو بلاگرز اور محفلین کا جوڑ

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں آج مورخہ 27 اپریل 2013 بروز ہفتہ اردو بلاگرز اور محفلین کی گیٹ ٹو گیدر میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت جاپان سے آئے ہوئے پرانے اور منجھے ہوئے اردو بلاگر خاور کھوکھر نے کی ۔دیگر اردو بلاگرز اور محفلین میں سے زوہیر چوہان ، ساجد ، فراز ( باباجی ) ، عاطف بٹ ، نیر احمد اور پردیسی ( نجیب عالم ) شامل تھے ۔مہمانان ِ گرامی جو پاک ٹی ہاؤس سے شامل ہوئے ان میں ‘‘ دی ورلڈ یوتھ ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر اور ان کے خوبصورت دوست و احباب اور سٹاف شامل تھا ۔

[gallery ids="923,924,925,926,927,928,929,930,931,932,933,934,935,936,937,938,939,940,941,942,943,944,945,946,947,948,949,950,951,952,953,954,955,956,957,958,959,960,961,962,963,964,965,966"]



بدھ، 3 اپریل، 2013

بڑا بولتے تھے صحافی

ایک اٹھ کے کہتا تھا ۔۔۔ سیاستدان ڈاکو ہیں ۔۔۔ دوسرا اٹھ کے آواز لگاتا تھا ۔۔۔ سیاستدان لٹیرے ہیں ۔۔ تیسرے کی نشے سے آنکھ کھلتی تھی ۔۔ بولتا تھا ۔۔۔ چور ہیں ۔۔ کچھ تو یہاں تک کہتے تھے کہ چھیاسٹھ سالوں میں جہاں ڈکٹیٹروں نے پاکستان کو جی بھر کے لوٹا ہے وہاں سیاستدانوں نے اس کا ککھ نہیں رہنے دیا۔یعنی باقی بچا کھچا یہ ہڑپ کر گئے ہیں
میں بھی ان کے قبیلے کا ہوتے ہوئے مانتا ہوں کہ یہ سب صحیح کہتے ہیں ۔۔ اور دیکھا جائے تو حقیقت بھی یہی ہے
اب جبکہ زرداری نے امریکہ کی آشیرباد سے اپنے شطرنج کے مہرے سمیٹتے ہوئے ایک صحافی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنوا دیا ہے اور دوسرے کو وفاقی وزیر کے طور پر لگا کر ایک تو ان کی ہمدردیاں سمیٹ لیں ہیں دوسرا گیند ان کے کورٹ میں پھینک کر ان کو کھلا چھوڑ دیا ہے ۔۔۔۔۔
پنجاب کا وزیر اعلیٰ صحافی بن گیا ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہے ۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات بھی صحافی بن گیا ۔۔۔ اب خبر تو کوئی بھی جھوٹی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔۔ یعنی سب اچھے کی آواز ہو گی
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ معزز صحافی گیند سے کھیلتے ہیں یا گیند کو پھاڑتے ہیں



جمعہ، 8 فروری، 2013

اردو نیوز پر اردو بلاگرز کی تشہیر

آج سے ہم نے اردو نیوز پر اردو بلاگرز کے بلاگ سے ان کا تازہ مواد لے کر ان کی تشہیر کروانی شروع کر دی ہے ۔اردو بلاگرز کی یہ تشہیر بلا امتیاز اور بغیر کسی لالچ یا پیسوں کے کروائی جا رہی ہے ۔ اگر آپ میں سے کوئی محترم بلاگر اس سلسلہ میں کچھ اور مفید مشورہ دینا چاہے تو بلا جھجھک تبصرے کے خانے میں لکھ دے ۔ہم اس کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے ۔

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...