پیر، 26 مئی، 2014

اردو بلاگرز اور میڈیائی مفتے



الیکشن سے چند مہینے پہلے سے لے کر آج سے چند ہفتوں پہلے تک سوشل میڈیا پر جہاں گندے سیاستدانوں کی مٹی پلید کی گئی وہاں ٹی وی میڈیا کے غلط اقدامات پر اسے بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ۔اب لگام تو ڈالنی ہی تھی نا ان لوگوں کو ۔۔۔ سو مفت کا دانہ ڈال کر ابتدا کر دی گئی ۔
یہ بھی یاد رہے کہ میڈیائی مفتوں نے دھڑلے سے اردو بلاگروں کی تحریریں چوری کر کے اپنے اخباروں میں بغیر ویب سائٹ کا لنک دئے چھاپی ہیں ۔ پتہ چلنے پر بغیر کوئی معذرت کئے بلاگروں کو مفتے کا لولی پاپ دے کر خوش کیا جارہا ہے ۔اور اردو بلاگرز بھی ایسے بھولے بادشاہ اور جذباتی ہیں کہ بس نہ پوچھیں ۔۔۔۔  اگر اپنے یہ محترم بلاگرز میڈیا خصوصاً ٹی وی اور اخبارات کے حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے تو یوں تالیاں نہ پیٹ رہے ہوتے ۔

اردو بلاگرز کا مشہور ہونا اچھی بات ہے ۔ان کو پیسے ملنا اور بھی اچھی بلکہ خوشی کی بات ہے ۔۔۔۔ کروڑوں روپے روزانہ کمانے والے میڈیائی مفتے اگر بلاگروں کو ان کی تحریروں کا مناسب معاوضہ دیتے ہیں تو ان کے لئے لکھنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔

اب یہاں ایک بات جو انتہائی اہم ہے کہ بلاگ ایک سوچ کا نام ہے اور سوچوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے ۔
اب ایک بلاگر کے کسی بھی روزنامے پر لکھنے سے کیا ہوگا ۔۔۔۔بس یہی ہوگا کہ ان کی تحریریں ایک خاص انداز اور نظم و ضبط کے اندر چھپنے کی وجہ سے یہ بلاگر کی پہچان کھو بیٹھیں گی ۔کیونہ یہ تجارتی بنیادوں پر لکھیں گے اور تجارتی بنیادوں پر لکھنے والا اپنے آقا کے بنائے ہوئے قوانین کا پابند ہوتا ہے ۔۔۔ سو اسے پابندی تو کرنی پڑے گی ۔
بلاگر وہی رہے گا اور کہلائے گا جس کی تحریر میں اس کی سوچ اور آزادی کا پر تو ہوگا

1 تبصرہ:

  1. بلاگر وہی رہے گا اور کہلائے گا جس کی تحریر میں اس کی سوچ اور آزادی کا پر تو ہوگا

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...