بدھ، 19 ستمبر، 2007

چوہدری کی بیٹھک

اپنے چوہدریوں کا بھی کیا کہنا، عجیب مخلوق ہوتے ہیں یہ بھی، ان پہ لکھنے بیٹھو تو سیاہی بھی نیلی سے کالی دکھائی دے۔اپنا ناطہ بھی چوہدریوں سے خاصا رہا ہے ، صفِ نازک ہو یا کلغی والا دونوں کی فطرت ایک جیسی ہی دکھائی دے گی۔ایک زمانے میں اپنا بھی اک یار چوہدری بن بیٹھا۔ہم نے شروع میں بڑا سمجھایا کہ یارا آرائیں فیملی سے ہو تو ملک کہلوایا کرو مگر وہ بھی ایسا کایاں انسان تھا کہ مانو تو الؤ ہی بڑا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملکوں کی کسی خاص بات سے خائف ہی ہو تبھی تو چوہدری کہنے سے اپنا سینہ ایک آدھ انچ پھُلا لیا کرتا تھا۔
اندھے کو کیا سوجھیں ، دو آنکھیں کے مصادق اپنے چوہدری صاحب کی فیملی میں سے ایک بدیس جا بسا اور بدیسی ملک بھی اگر امریکہ جیسا ہو تو آنکھیں کھل ہی جاتی ہیں۔قسمت اچھی تھی کہ اپنے چوہدری صاحب کی فیملی بھی اسی کے طفیل بدیسی ہوگئی۔
محبت کے معاملے میں بھی کچھ لوگ چوہدریوں کی مثال دیتے نظر آتے ہیں اور کچھ تو مجنوں کو بھی چوہدری گروانتے ہیں اب اس میں کتنی صداقت ہے یہ تو لیلیٰ ہی بہتر جانتی ہوگی۔ویسے اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں تو اپنے چوہدری کی مثال کو مدِ نطر جانتے یہی کہوں گا کہ مجنوں واقع میں چوہدری ہی ہوگا۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ مجنوں کو اپنے چوہدری سے تشبیہ دینا مجھے تو چوہدری کی توہین دکھائی دیتی ہے کیونکہ مجنوں تو صرف لیلیٰ کی خاطر اپنی جان گنوا بیٹھا اور اپنا چوہدری ، بس مت پوچھیں کتنی لیلائیں تھیں۔اب آپ کہیں یہ نہ سوچیں کہ ان میں کتنے لیلے تھے ( لیلے پیجابی میں دنبے کے بچوں کو کہا جاتا ہے ) وضاحت اس لئے ضروری جانی کہ کہیں لوگ اپنے چوہدری کو بھی جانور ہی نہ گرواننے لگیں۔
جی تو بات اپنے چوہدری کی لیلاؤں کی ہورہی تھی ۔بچپن میں تو چوہدری کو ہر لڑکی ہی لیلیٰ دکھائی دیتی تھی۔مجھے یاد ہے کہ چوہدری نے پہلا عشق اپنی جمعدارنی ( چوڑی ) سے کیا تھا۔یہ یکطرفہ عشق تھا کیونکہ اپنے چوہدری کو اس چوڑی نے گھاس تک نہیں ڈالی مگر چوہدری بھی کہاں ٹلنے والا تھا روزانہ ہی اس کے آنے پر آہیں بھرتا جب تک وہ گھر کی صفائی کرتی رہتی اپنے چوہدری کے چہرے کی خوشی دیدنی ہوتی اور جونہی وہ جاتی اپنا چوہدری سگریٹ پہ سگریٹ پھونکنا شروع کر دیتا اور کہتا کہ یار دیکھا کتنی سوہنی ہے ۔
دن گزرتے رہے اپنے چوہدری کے یکطرفہ عشق میں بھی شدت آتی گئی ، منصوبے بنتے بگڑتے رہے کہ یار آج اگر آئی تو اکیلی دیکھ کر دبوچ لوں گا اور اسی اثنا میں اس چوڑی نے چوہدری کے گھر آنا بند کردیا۔اب اپنے چوہدری کی حالت دیدنی تھی کہ کبھی اس گھر جا تو کبھی اس گھر، چوہدری کو یہی دھڑکا لگ گیا کہ کہیں اسے میری کوئی بات بری تو نہیں لگ گئی۔ہم نے چوہدری کو بڑا سمجھایا کہ یارا تم نے کیا ہی کچھ نہیں تو بات کیا بری لگتی۔مگر چوہدری تھا کہ بس آہ بھرتا اور نیا سگریٹ سلگا کر سوچ میں ڈوب جاتا۔
کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ اس جمعدارنی نے اپنے ہی برادری کے لڑکے سے عشق کی شادی کر لی اور کچھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی برادری کے لڑکے کے عشق میں جل مری۔
کچھ عرصہ تک تو اپنے چوہدری کی آہ و آزاری جاری رہی آخر ہم سے نہ رہا گیا،ہم کہہ ہی بیٹھے کہ یار چویدری دفعہ کر ، لعنت بھیج اور تھوڑی ہیں زمانے میں اور ذرا ان کو تو دیکھ ، للی اور ڈیزی کو کتنی خوبصورت ہیں اتنا سنتے ہی چوہدری کو جیسے کرنٹ کا جھٹکا لگا ہو ، کہنے لگا ، بس بس ڈیزی کی بات نہ کرو ، وہ صرف میری ہے۔ہم ہکا بکا رہ گئے ، ہم نے کہا یارا اس کی تو اُڑان ہی بڑی اونچی ہے اور پھر اس کے پیچھے تو بڑی بڑی گاڑیوں والے لوگ آتے ہیں وہ ان کو گھاس تک نہیں ڈالتیں۔چوہدری کہنے لگا وہ میرا بچپن کا پیار ہے اور تم کیا سمجھتے ہو میں کسی سے کم ہوں کیا، میں شادی کروں گا تو بس ڈیزی سے ہی کروں گا،
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔

3 تبصرے:

  1. واہ شیخو مزا آ گیا ویسے یہ چوہدری کون ہے کوئی تمہارا دوست یا ویسے ہی کہانی کا کردار

    جواب دیںحذف کریں
  2. لڑکے سب ہی ایسے ہوتے ہیں بکواس

    جواب دیںحذف کریں
  3. نیناں صاحبہ لڑکیاں بھی تو ایسی ہی ہوتی ہیں اور پھر آج کل توبہ توبہ۔ننگی پھر رہی ہیں

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...