ہفتہ، 1 مارچ، 2025

اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے ۔بابا بلھے شاہ

 




چھڈ دوزخ، گور عذاباں نوں
کر بند، کُفر دیاں باباں نوں
کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں

گل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

ایویں متّھا زمیں گھسائی دا
پا لما محراب دکھائی دا
پڑھ کلمہ لوک ہسائی دا
دِل اندر سمج نہ لائی دا

کدی سچّی بات وی لُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

اِک جنگل، بحریں جاندے نیں
اِک دانہ روز دا کھاندے نیں
بے سمجھ وجود تھکاندے نیں

چلیاں اندر جِند سُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

کئی حاجی بن بن آئے جی
گل نیلے جامے پائے جی
حج ویچ ٹکے لَے کھائے جی
پر ایہہ گل کینوں بھائے جی

کِتے سچّی گل وی رُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

 

اردو ترجمہ

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔بابا بلھے شاہ

 

پوائنٹ پکڑو، حساب چھوڑو

چھوڑ دو جہنم، عذاب قبر

کفر کے باب بند کرو

دل کے خوابوں کو صاف کریں۔

 

یہ اس گھر کے بارے میں ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

ایسے ہی زمین کی پیشانی

لمبی محراب نظر آتی ہے۔

یہ لفظ پڑھ کر لوگ ہنسیں۔

سمجھ کو دل میں نہ ڈالو

 

کبھی کبھی حقیقت چھپ جاتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

ایک جنگل، سمندر جاتے ہیں۔

وہ دن میں ایک دانہ کھاتے ہیں۔

بے دماغ وجود ختم ہو جاتے ہیں۔

 

چلی کے اندر زندگی سوکھ سکتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

بہت سے حجاج بن گئے۔

بات نیلے رنگ کے کپڑے پہننے کی ہے۔

حج بیچنے کے پیسے کھانے کے لیے

لیکن ایسا کیوں ہے بھائی؟

 

کہیں سچائی رک جاتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...