Saghar Saddiqi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Saghar Saddiqi لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 21 نومبر، 2012

ساغر صدیقی غزل ۔۔۔ وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو

یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو

بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو

تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو

وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو

ہفتہ، 4 جون، 2011

ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے

نکلے صدف کی آنکھ سے موتی مرے ہوئے
پھوٹے ہیں چاندنی سے شگوفے جلے ہوئے
ہے اہتمام گریہ و ماتم چمن چمن
رکھے ہیں مقتلوں میں جنازے سجے ہوئے
ہر ایک سنگ میل ہے اب تگِ رہگذر
ہیں رہبروں کی عقل پر پتھر پڑے ہوئے
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
اب میکدے میں بھی نہیں کچھ اہتمام کیف
ویران ہیں شعور تو دل ہیں بجھے ہوئے
ساغر یہ واردات سخن بھی عجیب ہے
نغمہ طراز شوق ہوں لب ہیں سلے ہوئے
ساغر صدیقی

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...