بدھ، 5 مارچ، 2025

خیبرپختونخوا میں بم دھماکے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ۔پولیس ترجمان

 



پاکستانی طالبان سے وابستہ گروپ جیش الفرسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے خیبرپختونخوا میں ایک سیکورٹی تنصیب پر بم حملے کے بعد کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے، پولیس اور ایک ہسپتال کے اہلکار نے بتایا کہ دو حملہ آوروں نے دھماکا خیز مواد سے بھری دو گاڑیاں بنوں میں کمپاؤنڈ کی دیوار سے ٹکرا دیں اور دوسرے حملہ آوروں نے پسپا ہونے سے پہلے اس جگہ پر دھاوا بول دیا، ایک سیکیورٹی اہلکار جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کو بتایا۔

بنوں ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا کہ حملے میں 12 افراد ہلاک اور 30 ​​زخمی ہوئے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ تمام شہری تھے جو منہدم عمارتوں اور دیواروں کے نیچے دب گئے تھے۔ہسپتال کی ایک فہرست کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں کم از کم سات بچے بھی شامل ہیں۔

پاکستانی طالبان سے وابستہ ایک گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے درجنوں ارکان ہلاک ہوئے۔ فوج کی طرف سے کسی جانی نقصان کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملے کے بعد چھ حملہ آوروں کو "فائرنگ کے تبادلے" میں ہلاک کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ دھماکوں نے "دو چار فٹ گڑھے" بنائے تھے اور اتنے زور دار تھے کہ علاقے میں کم از کم آٹھ مکانات کو نقصان پہنچا۔

جیش الفرسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، یہ پاکستان میں اتوار کو رمضان شروع ہونے کے بعد سے تیسرا حملہ ہے۔ ایک بیان میں، گروپ نے کہا کہ دھماکوں کا ذریعہ دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیاں تھیں۔

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام سے دھماکے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔

یہ حملہ پاکستان کے ایک اسلامی مذہبی اسکول میں ایک خودکش بمبار نے چھ افراد کی ہلاکت کے بعد کیا ہے، جس میں اسی صوبے میں طالبان کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔

اسلام آباد میں قائم تجزیہ کار گروپ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کے لیے ایک دہائی میں سب سے مہلک رہا، حملوں میں اضافہ ہوا جس میں 1,600 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

اسلام آباد نے کابل کے حکمرانوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ گزین جنگجوؤں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان پر حملے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، اس الزام کی طالبان حکومت انکار کرتی ہے۔

ماخذ: الجزیرہ اور نیوز ایجنسیاں


ہفتہ، 1 مارچ، 2025

توں ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے، خدا جانے ۔۔شاکر شجاع آبادی

 



توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے، خدا جانے
توں ڈیوا بال کے رکھ چا، ہوا جانے، خدا جانے

خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سکدا
چمن آباد رکھ، بادِ صبا جانے، خدا جانے

مریضِ عشق خود کوں کر، دوا دل دی سمجھ دِلبر
مرض جانے، دوا جانے، شفا جانے، خدا جانے

جے مَر کے زندگی چہندیں، فقیری ٹوٹکا سُن گھن
وفا دے وچ فنا تھی ونج، بقا جانے، خدا جانے

اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بے کار نئیں ویندی
دعا شاکؔر توں منگی رکھ، دُعا جانے، خدا جانے

 

اردو ترجمہ

تم محنت کرو ، محنت کا صلہ جانے، خدا جانے

تم چراغ جلاتے رہو، ہوا جانے، خدا جانے

 

خزاں کا خوف باغبان کو بزدل نہیں بنا سکتا

باغ کو شاداب رکھو بادِ صبا جانے، خدا جانے

 

خود کوعشق کا مریض بنا لو، دل کی دوا سمجھ کر، میرے محبوب

مرض جانے، دوا جانے، شفا جانے، خدا جانے

 

موت کے بعد زندگی چاہتے ہو تو فقیری نسخہ سن لو

وفا میں ہی فنا تھی، پھر بقا جانے، خدا جانے

 

یہ زندگی مکمل ہو یا نہ ہو مگر بیکار نہیں جائے گی

شاکر تم دعامانگتے رہو، دُعا جانے، خدا جانے


اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے ۔بابا بلھے شاہ

 




چھڈ دوزخ، گور عذاباں نوں
کر بند، کُفر دیاں باباں نوں
کر صاف دِلے دیاں خواباں نوں

گل ایسے گھر وِچ ڈُھکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

ایویں متّھا زمیں گھسائی دا
پا لما محراب دکھائی دا
پڑھ کلمہ لوک ہسائی دا
دِل اندر سمج نہ لائی دا

کدی سچّی بات وی لُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

اِک جنگل، بحریں جاندے نیں
اِک دانہ روز دا کھاندے نیں
بے سمجھ وجود تھکاندے نیں

چلیاں اندر جِند سُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

کئی حاجی بن بن آئے جی
گل نیلے جامے پائے جی
حج ویچ ٹکے لَے کھائے جی
پر ایہہ گل کینوں بھائے جی

کِتے سچّی گل وی رُکدی اے
اِک نقطے وِچ گل مُکدی اے

 

اردو ترجمہ

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔بابا بلھے شاہ

 

پوائنٹ پکڑو، حساب چھوڑو

چھوڑ دو جہنم، عذاب قبر

کفر کے باب بند کرو

دل کے خوابوں کو صاف کریں۔

 

یہ اس گھر کے بارے میں ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

ایسے ہی زمین کی پیشانی

لمبی محراب نظر آتی ہے۔

یہ لفظ پڑھ کر لوگ ہنسیں۔

سمجھ کو دل میں نہ ڈالو

 

کبھی کبھی حقیقت چھپ جاتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

ایک جنگل، سمندر جاتے ہیں۔

وہ دن میں ایک دانہ کھاتے ہیں۔

بے دماغ وجود ختم ہو جاتے ہیں۔

 

چلی کے اندر زندگی سوکھ سکتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔

 

بہت سے حجاج بن گئے۔

بات نیلے رنگ کے کپڑے پہننے کی ہے۔

حج بیچنے کے پیسے کھانے کے لیے

لیکن ایسا کیوں ہے بھائی؟

 

کہیں سچائی رک جاتی ہے۔

یہ ایک نقطہ پر ختم ہوتا ہے۔


جمعرات، 27 فروری، 2025

ماہی گیر ! سعادت حسن منٹو ۔ ۔ فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات

 


سمندر رو رہا تھا۔

مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاری کر رہی تھیں۔ دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور کمزور بادبانوں کے سہارے بے پناہ سردی سے ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ آسمان کی نیلی قبا میں چاند کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے پورے جوبن میں لہلہا رہا تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں بسی ہوئی تھی۔

ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میں ایک دوسرے سے اپنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کے سر چھپانے کی جگہ تھی۔

ایک جھونپڑی کا دروازہ کھلا تھا جس میں چاند کی آوارہ شعاعیں زمین پر رینگ رینگ کر اسکی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔ اس اندھی روشنی میں دیوار پر ماہی گیر کا جال نظر آ رہا تھا اور ایک چوبی تختے پر چند تھالیاں جھلملا رہی تھیں۔

 

جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروں میں ملبوس اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ پر پانچ بچے محوِ خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسلا جو خوابوں سے تھر تھرا رہا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خیالات میں مستغرق گھٹنوں کے بل بیٹھی گنگنا رہی تھی۔

 

یکایک وہ لہروں کا شور سن کر چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی آنیوالے خطرے سے آگاہ، سیاہ چٹانوں، تند ہواؤں اور نصف شب کی تاریکی کو مخاطب کر کے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہا تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر ہر ایک کی پیشانی پر اپنے سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہیں ٹاٹ کے ایک کونے میں بیٹھ کر دعا مانگنے لگی۔ لہروں کے شور میں یہ الفاظ بخوبی سنائی دے رہے تھے۔

"اے خدا۔۔۔۔۔اے بیکسوں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد سہارا، رات کا کفن اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت کے عمیق گڑھے پر پاؤں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کے ساتھ کُشتی لڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت میں رکھیو۔۔۔۔۔۔۔آہ، اگر یہ صرف نوجوان ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے۔"

یہ کہکر خدا معلوم اسے کیا خیال آیا کہ وہ سر سے پیر تک کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔ "بڑے ہو کر انکا بھی یہی شغل ہو گا، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ لاحق رہے گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ غربت، غربت۔"

یہ کہتے ہوئے وہ اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خیالات میں غرق ہو گئی۔ دفعتاً وہ اس اندھیرے خواب سے بیدار ہوئی اور اسکے دماغ میں ہوٹلوں کی دیو قامت عمارتیں اور امراء کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئیں۔ ان عمارتوں کی دلفریب راحتوں اور امراء کی تعیش پرستیوں کا خیال آتے ہی اسکے دل پر ایک دھند سی چھا گئی۔ کلیجے پر کسی غیر مرئی ہاتھ کی گرفت محسوس کر کے وہ جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تاریکی میں آوارہ نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔

اسکی یہ حرکت خیالات کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حیران تھی کہ لوگ امیر اور غریب کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان ایک ہی طرح ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل کے لیے اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چیز جو اسے پریشان کر رہی تھی وہ یہ تھی کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھیل کر سمندر کی گود سے مچھلیاں چھین کر لاتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ مارکیٹ کا مالک بغیر محنت کئے ہر روز سینکڑوں روپے پیدا کر لیتا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجیب سی معلوم ہوئی کہ محنت تو کریں ماہی گیر اور نفع ہو مارکیٹ کے مالک کو۔ رات بھر اسکا خاوند اپنا خون پسینہ ایک کر دے اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند میں چلی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اور بلند آواز میں کہنے لگی۔

"مجھ کم عقل کو بھلا کیا معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "اے خدا میں گنہگار ہوں، تو جو کرتا ہے، بہتر کرتا ہے۔۔۔۔۔ایسا خیال کرنا کفر ہے۔"

یہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور انکے معصوم چہروں کی طرف دیکھکر بے اختیار رونا شروع کر دیا۔

باہر آسمان پر کالے بادل مہیب ڈائنوں کی صورت میں اپنے سیاہ بال پریشان کئے چکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کبھی اگر کوئی بادل کا ٹکڑا چاند کے درخشاں رخسار پر اپنی سیاہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تاریکی چھا جاتی۔ سمندر کی سیمیں لہریں گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتیں اور کشتیوں کے مستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اس اچانک تبدیلی کو دیکھ کر آنکھیں جھپکنا شروع کر دیتیں۔

ماہی گیر کی بیوی نے اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کئے اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کا خاوند طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھا مگر صبح کا ایک سانس بھی بیدار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشنی کی ایک دھاری بھی نظر نہ آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی تھی۔

وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خیال میں مستغرق رہی۔ جو اس بارش میں سمندر کی تند موجوں کے مقابلے میں لکڑی کے ایک معمولی تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھی اسکی عافیت کے لیے دعا مانگ رہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہیں اندھیرے میں ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف اٹھیں، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے لرز رہی تھی۔

اس جھونپڑی میں روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسی نا معلوم خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ تنکوں کی چھت ہوا کے دباؤ تلے دوہری ہو رہی تھی۔

"آہ، خدا معلوم بیچاری بیوہ کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی روز سے بخار آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ماہی گیر کی بیوی زیرِ لب بڑبڑائی اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔

وہ شکستہ جھونپڑی ایک بیوہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوں سمیت روٹی کے قحط میں موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصیبت کی چچلتی ہوئی دھوپ میں اس پر کوئی سایہ کرنے والا نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچے تھے جو ابھی مشکل سے چل پھر سکتے تھے۔

ماہی گیر کی بیوی کے دل میں ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش کے بچاؤ کے لیے سر پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی لالٹین روشن کرنے کے بعد وہ جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستک دی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تیز ہواؤں کی چیخ پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ کانپی اور خیال کیا کہ شاید اسکی اچھی ہمسائی گہری نیند سو رہی ہے۔

اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھر خاموشی تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسیدہ لبوں سے نمودار نہ ہوا۔ یکایک دروازہ، جیسے اس بے جان چیز نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرک ہوا اور کھل گیا۔

ماہی گیر کی بیوی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموش قبر کو اپنی اندھی لالٹین سے روشن کر دیا، جس میں لہروں کے شور کے سوا مکمل سکوت طاری تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت میں سیاہ زمین کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا میں ایک مہیب خوف سانس لے رہا تھا۔

ماہی گیر کی بیوی اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑی میں سمٹا ہوا تھا سر تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں میں گرم گرم آنسو چھلکے اور بے اختیار اچھل کر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے ساتھ ہم آغوش ہو گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور دردناک آواز میں کہنے لگی۔

"آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہیں، ماں کی محبت، گیت، تبسم، ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یعنی قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ میرے خدا۔"

اسکے سامنے پھوس کے بستر پر بیوہ کی سرد لاش اکڑی ہوئی تھی اور اسکے پہلو میں دو بچے محو خواب تھے۔ لاش کے سینے میں ایک آہ کچھ کہنے کو رکی ہوئی تھی۔ اسکی پتھرائی ہوئی آنکھیں جھونپڑی کی خستہ چھت کو چیر کر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں، جیسے انہیں کچھ پیغام دینا ہے۔

ماہی گیر کی بیوی اس وحشت خیز منظر کو دیکھ کر چلا اٹھی۔ تھوڑی دیر دیوانہ وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اسکی نمناک آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوئی، اور اس نے لپک کر لاش کے پہلو سے کچھ چیز اٹھا کر اپنی چادر میں لپیٹ لی اور اس دار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی میں چلی آئی۔

چہرے کے بدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے اس نے اپنی جھولی کو میلے بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔ تھوڑی دیر بیوہ سے چھینی ہوئی چیز کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔

مطلع سمندر کے افق پر سپید ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی شعاعیں تاریکی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ماہی گیر کی بیوی بیٹھی اپنے احساسِ جرم کے شکستہ تار چھیڑ رہی تھی۔ ان غیر مربوط الفاظ کے ساتھ کن سُری لہریں اپنی مغموم تانیں چھیڑ رہی تھیں۔

"آہ میں نے بہت برا کیا۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی شکایت نہ ہو گی۔۔۔۔۔یہ بھی عجیب ہے کہ میں اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔کیا واپس چھوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف کر دے۔"

وہ اسی قسم کے خیالات میں غلطاں و پیچاں بیٹھی ہوئی تھی کہ ہوا کے زور سے دروازہ ہلا۔ یہ دیکھ کر اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا، وہ اٹھی اور کسی کو نہ پا کر وہیں متفکر بیٹھ گئی۔

"ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں کے لیے کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ اکیلے آدمی کو سات پیٹ پالنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شور کیا ہے؟"

یہ آواز چیختی ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔

"اسکے قدموں کی چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہیں ہوا ہے۔" یہ کہہ کر وہ پھر اپنے اندرونی غم میں ڈوب گئی۔ اب اسکے کانوں میں ہواؤں اور لہروں کا شور مفقود ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے میں خیالات کے تصادم کا کیا کم شور تھا۔

آبی جانور ساحل کے آس پاس چلا رہے تھے۔ پانی میں گھسے ہوئے سنگریزے ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوؤں کی آواز صبح کی خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گیر کی بیوی کشتی کی آمد سے بے خبر اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی۔

دفعتاً دروازہ ایک شور کے ساتھ کھلا۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلی شعاعیں جھونپڑی میں تیرتی ہوئی داخل ہوئیں، ساتھ ہی ماہی گیر کاندھوں پر ایک بڑا سا جال ڈالے دہلیز پر نمودار ہوا۔

اسکے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکین پانی سے شرابور ہو رہے تھے۔ آنکھیں شب بیداری کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جسم سردی اور غیر معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔

"نسیم کے ابا، تم ہو۔" ماہی گیر کی بیوی چونک اٹھی اور عاشقانہ بیتابی سے اپنے خاوند کو چھاتی سے لگا لیا۔

"ہاں میں ہوں پیاری"

یہ کہتے ہوئے ماہی گیر کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کی ایک دھندلی روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بیوی کی محبت نے اسکے دل سے رات کی کلفت کا خیال محو کر دیا۔

"موسم کیسا تھا؟" بیوی نے محبت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔

"تُند"

"مچھلیاں ہاتھ آئیں؟"

"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔"

یہ سن کر اسکی بیوی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گیر نے اسے مغموم دیکھا اور مسکرا کر بولا۔

"تو میرے پہلو میں ہے۔۔۔۔۔۔میرا دل خوش ہے۔"

"ہوا تو بہت تیز ہو گی؟"

"بہت تیز، معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا کہ تمام شیطان مل کر اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ جال ٹوٹ گیا۔ رسیاں کٹ گئیں اور کشتی کا منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔" پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بولا۔ "مگر تم شب بھر کیا کرتی رہی ہو پیاری؟"

بیوی کسی چیز کا خیال کر کے کانپی اور لرزاں آواز میں جواب دیا۔ "میں۔۔۔۔۔۔آہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔سیتی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی طرح کڑک رہی تھیں، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔"

"ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"اور ہاں، ہماری ہمسایہ بیوہ مر گئی ہے۔" بیوی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

ماہی گیر نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ وہ ہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔ اس نے آہ بھری اور صرف اتنا کہا۔ "بیچاری سدھار گئی ہے۔"

"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو لاش کے پہلو میں لیٹے ہوئے ہیں۔"

یہ سن کر ماہی گیر کا جسم زور سے کانپا اور اسکی صورت سنجیدہ و متفکر ہو گئی۔ ایک کونے میں اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھیگ رہی تھی، پھینک کر سر کھجلایا اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بولا۔

"پانچ بچے تھے، اب سات ہو گئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس سے پیشتر ہی اس تُند موسم میں ہمیں دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اب مگر خیر۔۔۔۔یہ میرا قصور نہیں۔ اس قسم کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔"

وہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گھٹنوں میں دبائے سوچتا رہا۔ اسے یہ سمجھ نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اسکی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہیں، ماں کیوں چھین لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان سوالوں کا کوئی حل نہ پیش کر سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔

"شاید ایسی چیزوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔" اور پھر اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر بولا۔ "پیاری جاؤ انہیں یہاں لے آؤ۔ وہ کس قدر وحشت زدہ ہونگے اگر وہ صبح اپنی ماں کی لاش کے پاس بیدار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت بے قرار ہو گی، جاؤ انھیں ابھی لیکر آؤ۔"

یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اولاد کی طرح پالے گا۔ وہ بڑے ہو کر اسکے گھٹنوں پر چڑھنا سیکھ جائینگے۔ خدا ان اجنبیوں کو جھونپڑی میں دیکھ کر بہت خوش ہو گا اور انھیں زیادہ کھانے کو عطا کرے گا۔

"تمھیں فکر نہیں کرنی چاہیئے پیاری۔۔۔۔۔۔۔میں زیادہ محنت سے کام کروں گا۔" اور پھر اپنی بیوی کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہنے لگا۔ "مگر تم سوچ کیا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیمی چال سے نہیں چلنا چاہئے تمھیں۔"

ماہی گیر کی بیوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ دیا۔

"وہ تو یہ ہیں۔"

دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔


انقلاب پسند ۔سعادت حسن منٹو

 


میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس زمانے میں ہم نے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا، ایک ہی کالج میں داخل ہوئے اور ایک ہی ساتھ ایف اے کے امتحان میں شامل ہو کر فیل ہوئے۔ پھر پرانا کالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔اس سال میں تو پاس ہو گیا مگر سلیم سوئے قسمت سے پھر فیل ہو گیا۔

سلیم کی دوبارہ نا کامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ آوارہ مزاج اور نالائق ہے۔۔۔۔۔۔یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونے کی حیثیت سے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔ اگر وہ پڑھائی کی طرف ذرا بھی توجہ دیتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ صوبہ بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کی طرف کیوں توجہ نہ دی؟

جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اسکی تمام تر وجہ وہ خیالات معلوم ہوتے ہیں جو ایک عرصے سے اسکے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے تھے۔

دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمام الجھنوں سے آزاد تھا جس نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں مقید کر رکھا ہے۔ ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح ہر کھیل کود میں حصہ لیا کرتا تھا۔ سب لڑکوں میں ہردلعزیز تھا مگر یکایک اسکے والد کی ناگہانی موت نے اس کے متبسم چہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔۔۔۔۔۔اب کھیل کود کی جگہ غور و فکر نے لے لی۔

وہ کیا خیالات تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہوئے؟ یہ مجھے معلوم نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اسکے علاوہ وہ خود اپنی دلی آواز سے ناآشنا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی سیر کرتے ہوئے اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ "عباس جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

"ہاں، ہاں، کیا جی چاہتا ہے" میں نے اسکی طرف تمام توجہ مبذول کر کے پوچھا ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلی اور گلے میں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے دلی مدعا کو خود نہ پہچانتے ہوئے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا۔

وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کر کے دوسرے ذہن پر منتقل کر سکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مترادف ہے جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہوئی چیر کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔یہ ایک ذہنی عذاب ہے جس کی تفصیل لفظوں میں نہیں آ سکتی۔

سلیم شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے اور ہوتا بھی کیونکر جب اسکے سینے میں خیالات کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا اور بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ بیٹھا بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کمرے میں چکر لگا کر لمبے لمبے سانس بھرنے شروع کر دیے۔۔۔۔۔غالباً وہ اپنے اندرونی انتشار سے تنگ آ کر ان خیالات کو جو اسکے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے، سانسوں کے ذریعے باہر نکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی تکلیف دہ لمحات میں اس نے اکثر اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ہے۔ "عباس، یہ خاکی کشتی کسی روز تند موجوں کی تاب نہ لا کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

وہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا تھا۔

سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ حادثہ کس شکل میں پردۂ ظہور پر نمودار ہو گا۔۔۔۔۔اسکی نگاہیں ایک عرصے سے دھندلے خیالات کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں جو اسکی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا، مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کے پردے میں کیا نہاں ہے۔

میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر مجھے اسکی منقلب عادات کے ہوتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کن گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ اور اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے کیا کرنا چاہتا ہے جبکہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر دیا گیا تھا۔

میں ایک عرصے سے سلیم کو منقلب ہوتے دیکھ رہا تھا اسکی عادات دن بدن بدل رہی تھیں۔۔۔۔۔کل کا کھلنڈرا لڑکا، میرا ہم جماعت ایک مفکر میں تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تبدیلی میرے لئے سخت باعثِ حیرت تھی۔

کچھ عرصے سے سلیم کی طبعیت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔ جب دیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اپنے بھاری سر کو گھٹنوں میں تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا سوچ رہا ہوتا، یہ میری طرح خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر دوات کا آہنی ڈھکنا یا گلاس کا بیرونی حصہ پھیرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔شاید وہ اس عمل سے اپنی آنکھوں کی حرارت کم کرنا چاہتا تھا۔

سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفوں کی بھاری بھر کم تصانیف کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اسکی میز پر ایک کتاب نظر آئی۔ پھر آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں شطرنج، تاش اور اسی قسم کی دیگر کھیلیں رکھا کرتا تھا، کتابیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔۔۔۔۔اسکے علاوہ وہ کئی کئی دنوں تک گھر سے کہیں باہر چلا جایا کرتا تھا۔

جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں کے انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا جنہیں اس نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا رکھا تھا۔

سلیم کا عزیز ترین دوست ہونے کی حیثیت میں، میں اس کی طبیعت کے غیر معمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ سکون کسی وحشت خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اسکے علاوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی بہت خیال تھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثے کا واقع ہوا تھا، اس پر اس نے خواہ مخواہ اپنے آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکل بیس سال کی ہو گی مگر اسکی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑے رہتے تھے۔۔۔۔۔جو اسکی ذہنی پریشانی کو ظاہر کرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریں پڑ گئی تھیں جنہوں نے سلیم کو قبل از وقت معمر بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس غیر معمولی تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔ جو مجھے ایک شعبدے سے کم معلوم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔یہ کیا کم تعجب کی بات ہے کہ میری عمر کا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔

سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اسکے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالباً اس بنا پر پاگل خانے بھیجا گیا ہے کہ وہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گزروں کو پکڑ پکڑ کر انہیں زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے اور امراء کے حریر پوش بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ممکن ہے یہ حرکات ڈاکٹروں کے نزدیک دیوانگی کی علامتیں ہوں مگر میں تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سلیم پاگل نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے اسے امنِ عامہ میں خلل ڈالنے والا تصور کرتے ہوئے آہنی سلاخوں کے پنجرے میں قید کر دیا ہے کسی دیوانے حیوان سے کم نہیں ہیں۔

اگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے تو کیا انکا فرض نہیں ہے کہ وہ اسکے ہر لفظ کو غور سے سنیں؟

اگر وہ راہ گزاروں کے ساتھ فلسفۂ حیات پر تبادلۂ خیالات کرنا چاہتا ہے تو کیا اسکے معنی یہ لئے جائینگے کہ اسکا وجود مجلسی دائرہ کے لیے نقصان دہ ہے؟ کیا زندگی کے حقیقی معانی سے باخبر ہونا ہر انسان کا فرض نہیں ہے؟

اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اتار کر غربا کے برہنہ بچوں کا تن ڈھانپتا ہے تو کیا یہ عمل ان افراد کو انکے فرائض سے آگاہ نہیں کرتا جو فلک بوس عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا ننگوں کی ستر پوشی کرنا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمول کیا جائے؟

سلیم ہرگز پاگل نہیں ہے مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اسکے افکار نے اسے بیخود ضرور بنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہے مگر دے نہیں سکتا۔ ایک کم سن بچے کی طرح وہ تتلا تتلا کر اپنے قلبی احساسات بیان کرنا چاہتا ہے مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔

وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتلا تھا مگر اب اسے اور اذیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے اور اب اسے زندان نما کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے؟

میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی جس سے میں یہ نتیجہ نکال سکوں کہ وہ دیوانہ ہے ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اسکے ذہنی انقلابات کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔

شروع شروع میں جب میں نے اسکے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا پایا تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی، دراصل میں نے اس وقت خیال کیا کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ موزوں خیال کیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور میزوں کو کئی سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں وہ غیر متوقع تبدیلی بہت بھلی معلم ہوئی۔

اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرے میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے سے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنہیں میں نے اور سلیم نے بہت مشکل کے بعد فراہم کیا تھا باہر ٹوکری میں پھٹی پڑی ہیں اور انکی جگہ انہی چوکھٹوں میں مختلف مصنفوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چونکہ میں خود ان تصاویر کا اتنا مشاق نہ تھا اس لئے مجھے سلیم کا یہ انتخاب بہت پسند آیا چنانچہ ہم اس روز دیر تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک کوئی خاص قابلِ ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایک روز اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر کتابیں چن رکھی تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں، اس تخت کے کیا معانی؟

سلیم،جیسا کہ اسکی عادت تھی، مسکرایا اور کہنے لگا۔ "کرسیوں پر روزانہ بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اکتا گئی ہے، اب یہ فرش والا سلسلہ ہی رہے گا۔"

بات معقول تھی، میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال کرتے کرتے طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے مگر جب پندرہ بیس روز کے بعد میں نے وہ تخت مع تکیئے کے غائب پایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی اور مجھے شبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعی خبطی تو نہیں ہو گیا ہے۔

سلیم سخت گرم مزاج واقع ہوا ہے۔ اسکے علاوہ اسکے وزنی افکار نے اسے معمول سے زیادہ چڑچڑا بنا رکھا ہے۔ اس لئے میں عموماً اس سے ایسے سوالات نہیں کیا کرتا جو اسکے دماغی توازن کو درہم برہم کر دیں یا جس سے وہ خواہ مخواہ کھج جائے۔

فرنیچر کی تبدیلی، تصویروں کا انقلاب، تخت کی آمد اور پھر اسکا غائب ہو جانا واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں نے ان امور کی وجہ دریافت کرتا مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا اور اسکے کام میں دخل دینا منظور نہ تھا اس لیے میں خاموش رہا۔

ٹھوڑے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی تبدیلی دیکھنا میرا معمول ہو گیا۔۔۔۔اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے تو ہفتے کے بعد وہاں سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اسکے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہ پہلے کمرے کے دائیں طرف پڑی تھی، رات رات میں وہاں سے اٹھا کر دوسری طرف رکھ دی گئی ہے۔ انگھیٹی پر رکھی ہوئی تصاویر کے زاویے بدلے جا رہے ہیں۔ کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی ہیں۔ کرسیوں کے رخ تبدیل کئے گئے ہیں، گویا کمرے کی ہر شے سے ایک قسم کی قواعد کرائی جاتی تھی۔

ایک روز جب میں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔ "سلیم میں ایک عرصے سے اس کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں، آخر بتاؤ تو سہی یہ تمھارا کوئی نیا فلسفہ ہے؟"

"تم جانتے نہیں ہو، میں انقلاب پسند ہوں۔" سلیم نے جواب دیا۔

یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسبِ معمول مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہ صرف مذاق کر رہا ہے مگر یہ جواب دیتے وقت اسکا چہرہ اس امر کا شاہد تھا کہ وہ سنجیدہ ہے اور میرے سوال کا جواب وہ انہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے۔ لیکن پھر بھی میں تذبذب کی حالت میں تھا، چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ "مذاق کر رہے ہو یار؟"

"تمھاری قسم بہت بڑا انقلاب پسند۔" یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا۔

مجھے یاد ہے کہ اسکے بعد اس نے ایسی گفتگو شروع کی تھی۔ مگر ہم دونوں کسی اور موضوع پر اظہارِ خیالات کرنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔یہ سلیم کی عادت ہے کہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چھپا لیا کرتا ہے۔

ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سلیم درحقیقت انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ اسکے یہ معنی نہیں کہ وہ کسی سلطنت کا تختہ الٹنے کے درپے ہے یا دیگر انقلاب پسندوں کی طرح چوراہوں میں بمب پھینک کر دہشت پھیلانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکی نظریں اپنے کمرے میں پڑی ہوئی اشیاء کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ممکن ہے میرا یہ قیافہ کسی حد تک غلط ہو، مگر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسکی جستجو کسی ایسے انقلاب کی طرف رجوع کرتی ہے، جسکے آثار اسکے کمرے کی روزانہ تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔

بادی النظر میں کمرے کی اشیاء کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا نیم دیوانگی کے مترادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنی حرکات کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو یہ امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت کام کر رہی تھی جس سے وہ خود ناآشنا تھا۔۔۔۔۔۔اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا نام دیتا ہوں، سلیم کے دماغ میں تلاطم بپا کر دیا۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس طوفان کی تاب نہ لا کر از خود رفتہ ہو گیا، اور پاگل خانے کی چار دیواری میں قید کر دیا گیا۔

پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل میں چائے پیتا ہوا ملا۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔ اس لیے کہ میں اس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے بازار کے چند دکانداروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا ہے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ اسے سے فوراً مل کر اسے اس قسم کی حرکات کرنے سے منع کر دوں۔ اسکے علاوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ خبط الحواس ہی نہ ہو گیا ہو۔ چونکہ میں اس سے فوراً ہی بات کرنا چاہتا تھا، اس لیے میں نے ہوٹل ہی میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔

کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے اسطرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"

آواز میں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہ معلوم ہو مگر خدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک ہو گئیں۔ "شاید میں سلیم نہیں ہوں۔"۔۔۔۔۔۔گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اسکا بہترین دوست بھی اسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے۔

میں نے ضبط سے کام لیا، اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"سلیم میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے لاہور جانے کے بعد یہاں بازاروں میں تقریریں کرنی شروع کر دی ہیں، جانتے بھی ہو، اب تمھیں شہر کا بچہ بچہ پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔"

"پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پکارتا ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں عباس، میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔دیوانہ ۔۔۔۔۔۔۔خرد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہے کیوں؟"

یہاں تک کہہ کر وہ میری طرف سر تا پا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔

"اس لئے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دکھلا دکھلا کر یہ پوچھتا ہوں کہ اس بڑھتی ہوئی غربت کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب نہیں دے سکتے، اس لئے وہ مجھے پاگل تصور کرتے ہیں۔۔۔۔۔آہ اگر مجھے صرف یہ معلوم ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا سکتی ہے۔ ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منور بنایا جا سکتا ہے۔"

"وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ جن کی نبضِ حیات دوسروں کے خون کی مرہونِ منت ہے۔ وہ جن کا فردوس غرباء کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار کیا گیا ہے، وہ جن کے سازِ عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں، یتیموں کی عریانی، لا وارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہَیں، مگر ایک زمانہ آنے والا ہے جب یہی پروردۂ غربت اپنے دلوں کے مشترکہ لہو میں انگلیاں ڈبو ڈبو کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔۔۔۔وہ وقت نزدیک ہے جب ارضی جنت کے دروازے ہر شخص کے لیے وا ہونگے۔"

"میں پوچھتا ہوں کہ اگر میں آرام میں ہوں تو کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کی زندگی بسر کرو؟۔۔۔۔۔۔کیا یہی انسانیت ہے کہ میں کارخانے کا مالک ہوتے ہوئے ہر شب ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہوں، ہر روز کلب میں سینکڑوں روپے قمار بازی کی نذر کر دیتا ہوں، اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے دریغ روپیہ بہا کر اپنا دل خوش کرتا ہوں، اور میرے مزدورں کو ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ انکے بچے مٹی کے ایک کھلونے کے لیے ترستے ہیں۔۔۔۔۔پھر لطف یہ ہے کہ میں مہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے اور وہ لوگ جن کا پسینہ میرے لئے گوہر تیار کرتا ہے، مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ میں خود ان سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے ناآشنا ہیں؟"

"میں ان دونوں کو انکے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، مگر کسطرح کروں؟۔۔۔۔۔۔یہ مجھے معلوم نہیں۔"

سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر دیا۔

"میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک وکیل سمجھو، بغیر کسی امید کے، جو اس چیز کی وکالت کر رہا ہے، جو بالکل گم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک دبی ہوئی آواز ہوں۔۔۔۔۔انسانیت ایک منہ ہے اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرے خیالات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔۔۔۔۔میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لئے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ مجھے بہت کچھ کہنا ہے، میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں، یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں اپنی آواز کے بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں۔ ذہنی اذیت کے دھندلے غبار میں سے چند خیالات تمہید کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ اپنے احساسات کی عمیق گہرائیوں سے چند احساس سطح پر لاتا ہوں کہ دوسرے اذہان پر منتقل کر سکوں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں، خیالات پھر تاریکی میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔"

"جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیالات منتشر ہونے کے بعد پھر جمع ہو رہے ہیں تو جہاں کہیں میری قوتِ گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے مخاطب ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں:۔

"مرمریں محلات کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی دیکھتے ہو، مگر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کے نام سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آ کر پہلی دفعہ ایوانِ گناہ کی طرف قدم بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔"

"تم ہنستے ہو، مگر تمھیں مجھے ضرور سننا ہو گا، میں ایک غوطہ خور ہوں۔ قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں ڈبو دیا کہ میں کچھ ڈھونڈ کر لاؤں۔۔۔۔۔۔میں ایک بے بہا موتی لایا ہوں، وہ سچائی ہے، اس تلاش میں میں نے غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار ہوا ہوں۔ جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوں کو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے۔ اس لیے کہ وہ مجبور تھیں۔۔۔۔۔اب میں یہی کچھ تمھارے منہ پر قے کر دینا چاہتا ہوں کہ تمھیں تصویرِ زندگی کا تاریک پہلو نظر آ جائے۔"

"انسانیت ایک دل ہے، ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجود ہے۔ اگر تمھارے بوٹ غریب مزدوروں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں، اگر تم اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمت دری سے ٹھنڈی کرتے ہو، اگر تمھاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارۂ جہالت میں پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اگر تمھارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے، تو یہ تمھارا قصور نہیں۔ ایوانِ معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا ہے کہ اسکی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دبائے ہوئے ہے، ہر اینٹ دوسری اینٹ کو۔"

"جانتے ہو موجودہ نظام کے کیا معنی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ لوگوں کے سینوں کو جہالت کدہ بنائے، انسانی تعزز کی کشتی ہوا و ہوس کی موجوں میں بہا دے۔ جوان لڑکیوں کی عصمت چھین کر انہیں ایوانِ تجارت میں کھلے بندوں حسن فروشی پر مجبور کر دے۔ غریبوں کا خون چوس چوس کر انہیں جلی ہوئی راکھ کے مانند قبر کی مٹی میں یکساں کر دے۔۔۔۔۔۔کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتے ہو۔۔۔۔۔۔۔بھیانک قصابی، تاریک شیطنت۔"

"آہ، اگر تم صرف وہ دیکھ سکو جسکا میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔ تمھاری نظروں کے سامنے ایسے افراد موجود ہیں جو موت کے منہ میں جی رہے ہیں۔ ایسی لڑکیاں ہیں جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں اور بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔مگر تم۔۔۔۔۔۔۔ہاں تم، جو اپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے بلکہ الٹا غریبوں سے چھین کر امراء کی دولتوں میں اضافہ کرتے ہو، مزدور سے لیکر کاہل کے حوالے کر دیتے ہو۔ گوڈری پہنے انسان کا لباس اتار کر حریر پوش کے سپرد کر دیتے ہو۔"

"تم غرباء کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمھیں یہ معلوم نہیں کہ اگر درخت کا نچلا حصہ لاغر و مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ بالائی حصے کے بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔"

یہاں تک بول کر سلیم خاموش ہو گیا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔

تقریر کے دوران میں سحرزدہ آدمی کی طرح چپ چاپ بیٹھا اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ جو بارش کی طرح برس رہے تھے، بغور سنتا رہا۔ میں سخت حیران تھا کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا، اتنی طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے، اسکے خیالات کس قدر حق پر مبنی ہیں اور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں اسکی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ پھر بولا۔

"خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں، عوام کے اخلاق قوانین سے مسخ کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔ ٹیکسوں کے ذریعے دامنِ غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی سیاہ بنا دیتی ہے۔ ہر طرف حالتِ نزع کے سانس کی لرزاں آوازیں، عریانی، گناہ اور فریب ہے۔ مگر دعویٰ یہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔۔۔کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی جا رہی ہے۔ ہمارے کانوں سے پگھلا ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسم مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے جا رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں اور نہ محسوس کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیا اسکے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا رہا؟۔۔۔۔۔۔کیا امراء کی نظر فریب عمارتیں مزدوروں کے گوشت پوست سے تیار نہیں کی جاتیں؟۔۔۔۔۔۔کیا عوام کے مکتوبِ حیات پر جرائم کی مہر ثبت نہیں کی جاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں ہے؟ کیا جمہور کی زندگی کشمکشِ پیہم، ان تھک محنت اور قوتِ برداشت کا مرکب نہیں ہے؟ بتاؤ، بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟"

"درست ہے۔" میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔

"تو پھر اسکا علاج کرنا تمھارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم کوئی طریقہ نہیں بتا سکتے کہ اس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔مگر آہ، تمھیں معلوم نہیں، مجھے خود معلوم نہیں۔"

ٹھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر راز دارانہ لہجے میں یوں کہنے لگا۔ "عباس، عوام سخت تکلیف برداشت کر رہے ہیں، بعض اوقات جب کبھی میں کسی سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شہر نہ جل جائے۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں جاتا ہوں، تم لاہور واپس کب جا رہے ہو؟"

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ٹوپی سنبھال کر باہر چلنے لگا۔

"ٹھہرو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں، کہاں جاؤ گے اب؟" اسے یک لخت کہیں جانے کے لیے تیار دیکھ کر میں نے اسے فوراً ہی کہا۔

"مگر میں اکیلا ہی جانا چاہتا ہوں، کسی باغ میں جاؤں گا۔"

میں خاموش ہو گیا اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میں گم ہو گیا۔ اس گفتگو کے چوتھے روز مجھے لاہور میں اطلاع ملی کہ سلیم نے میرے جانے کے بعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس لیے اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا ہے۔


Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...