اتوار، 9 مارچ، 2025

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

 

Javed Iqbal Pakistani serial killer.Photo GEO


جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں اور زندگی اپنے رنگ میں رواں دواں تھی، وہیں ایک تاریک سایہ چھپا ہوا تھا۔ اس سایے کا نام تھا جاوید اقبال مغل۔ وہ ایک عام سا دکھنے والا شخص تھا—چھوٹا قد، سادہ لباس، اور ایک ایسی مسکراہٹ جو بظاہر بے ضرر لگتی تھی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے پیچھے ایک ایسی وحشت چھپی تھی جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔

ابتدائی زندگی اور نفرت کا بیج

جاوید اقبال 1956ء میں لاہور میں پیدا ہوا۔ وہ ایک تاجر کے گھر میں آٹھ بچوں میں سے چھٹا تھا۔ اس کا باپ، محمد علی مغل، ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھا، اور گھر میں دولت کی کمی نہ تھی۔ جاوید کی پرورش ایک متوسط طبقے کے ماحول میں ہوئی، جہاں اسے بنیادی سہولیات میسر تھیں۔ لیکن اس کے اندر ایک بے چینی تھی، ایک خلا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا۔

1978ء میں، جب وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھا، اس نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا—اسٹیل کی دوبارہ پروسیسنگ کا۔ اس کے والد نے اسے شاد باغ میں ایک ولا دیا، جہاں وہ اکیلا رہتا تھا۔ لیکن اس کے رویے میں کچھ عجیب تھا۔ وہ اکثر تنہائی میں گھنٹوں گزارتا، اور اس کی دلچسپی ان بچوں کی طرف بڑھنے لگی جو گلیوں میں بھٹکتے تھے—بے گھر، یتیم، یا راہ سے بھٹکے ہوئے۔

1990ء کی دہائی میں، جاوید کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں۔ اس پر کم عمر لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کے الزامات لگے۔ ایک بار ایک لڑکے نے اسے شدید زخمی کر دیا، جس کے بعد اس کی ماں کی صحت خراب ہو گئی اور وہ دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گئیں۔ جاوید نے اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا صدمہ قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی ماں اسے زخمی اور بدنام دیکھ کر روتی رہی تھیں۔ اس واقعے نے اس کے دل میں ایک گہری نفرت بھر دی—ایک نفرت جو اسے انتقام کی طرف لے گئی۔

قتل کا جنون

جاوید نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاشرے سے بدلہ لے گا جس نے اسے ذلیل کیا۔ اس نے اپنے گھر کو ایک جال بنایا۔ وہ بچوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ویڈیو گیم پارلر کھولتا، انہیں کھانا دیتا، اور ان سے دوستی کرتا۔ زیادہ تر اس کے شکار وہ بچے ہوتے جو گھر سے بھاگے ہوئے یا یتیم تھے—وہ جن کی کوئی تلاش نہ کرتا تھا۔

1998ء سے 1999ء کے درمیان، جاوید نے اپنے بھیانک منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ اس نے 6 سے 16 سال کے لڑکوں کو نشانہ بنایا۔ وہ انہیں اپنے گھر لے جاتا، ان کے ساتھ زیادتی کرتا، اور پھر ان کا گلا گھونٹ دیتا۔ اس کے بعد وہ لاشوں کو ٹکڑوں میں کاٹتا اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے ڈرموں میں ڈال دیتا تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ اس نے اپنی ڈائری میں ہر قتل کی تفصیل لکھی—نام، عمر، اور یہ کہ اس نے انہیں کیسے مارا۔ اس نے لکھا، "میں نے سو ماؤں کو اپنے بیٹوں کے لیے رلانے کا عہد کیا تھا، جیسے میری ماں میرے لیے روئی تھی۔"

انکشاف اور گرفتاری

دسمبر 1999ء میں، جاوید نے اپنے سوویں شکار کو قتل کیا۔ اس کے بعد اس نے ایک خط لکھا اور اسے لاہور کے ایک اخبار "جنگ" اور پولیس کے پاس بھیجا۔ خط میں اس نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا اور بتایا کہ اس نے سو بچوں کو قتل کیا اور ان کی لاشیں راوی دریا میں بہا دیں۔ اس نے اپنے گھر میں ثبوت بھی چھوڑے—خون کے دھبے، بچوں کی تصاویر، اور دو ڈرم جن میں ابھی تک ہڈیاں باقی تھیں۔

پولیس نے اسے پکڑنے کے لیے ملک کی سب سے بڑی تلاش شروع کی۔ جاوید نے خود کو "جنگ" کے دفتر میں پیش کر دیا اور گرفتار ہو گیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد اس کے گھر سے بچوں کے کپڑوں اور جوتوں کے ڈھیر برآمد ہوئے۔ اس نے عدالت میں کہا کہ وہ معاشرے کے سامنے بچوں کے استحصال کا مسئلہ اٹھانا چاہتا تھا، لیکن اس کا دعویٰ کسی کو قائل نہ کر سکا۔

 

جاوید اقبال کے کیس کے پیچھے حقائق

جاوید اقبال مغل (پیدائش تقریباً 1956ء یا 1961ء—یقینی تاریخ معلوم نہیں، وفات 8 اکتوبر 2001ء) پاکستان کے بدنام زمانہ سیریل کلرز میں سے ایک ہے۔ 1998ء سے 1999ء کے درمیان، اس نے لاہور میں 6 سے 16 سال کی عمر کے 100 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کا اعتراف کیا۔ اس کا طریقہ کار انتہائی خوفناک تھا: وہ کمزور بچوں—اکثر بھاگے ہوئے، یتیم، یا سڑکوں پر رہنے والوں—کو شاد باغ میں اپنے گھر لے جاتا، ان کے ساتھ زیادتی کرتا، زنجیر سے گلا گھونٹتا، لاشوں کے ٹکڑے کرتا، اور ہائیڈروکلورک ایسڈ کے ڈرموں میں تحلیل کر دیتا۔ باقیات کو راوی دریا یا نالوں میں پھینک دیتا، تاکہ کوئی ثبوت نہ رہے۔

اس کے جرائم دسمبر 1999ء میں منظر عام پر آئے جب اس نے لاہور پولیس اور اخبار جنگ کو ایک اعترافی خط بھیجا، جس میں اس نے اپنے اعمال کی تفصیل دی اور دعویٰ کیا کہ اس نے 100 شکاروں کا ہدف مکمل کر لیا۔ اس نے ہر قتل کو ایک ڈائری میں نوٹ کیا—نام، عمر، اور تصاویر سمیت۔ پولیس نے اس کے گھر کی تلاشی لی تو وہاں انسانی باقیات کے ساتھ ڈرم، خون کے دھبے، اور بچوں کے کپڑے ملے۔ بڑے پیمانے پر تلاش کے بعد، جاوید نے 30 دسمبر 1999ء کو جنگ کے دفتر میں خود کو پیش کیا، کیونکہ اسے پولیس کے تشدد کا خوف تھا۔

اس کا مقدمہ 2000ء میں چلا، جو بہت مشہور ہوا۔ 16 مارچ 2000ء کو جج اللہ بخش نے اسے 100 بار سزائے موت سنائی—اسے زنجیر سے گلا گھونٹنے، 100 ٹکڑوں میں کاٹنے، اور ایسڈ میں جلانے کا حکم دیا گیا، جو اس کے جرائم کا عکاس تھا۔ لیکن یہ سزا کبھی عمل میں نہ آئی۔ 8 اکتوبر 2001ء کو، جاوید اور اس کا ساتھی ساجد احمد کوٹ لکھپت جیل میں مردہ پائے گئے۔ سرکاری طور پر خودکشی قرار دیا گیا، لیکن پوسٹ مارٹم میں تشدد کے نشانات ملے، جس سے قتل کا شبہ ہوا۔

اس کیس نے نظام کی ناکامی کو عیاں کیا: بہت سے شکاروں کی گمشدگی کی رپورٹ ہی درج نہ ہوئی، اور جاوید کے خلاف 1985ء اور 1990ء میں بدفعلی کی شکایات پر عمل نہ ہوا، جس سے وہ قتل تک جا پہنچا۔

اس میں ملوث افراد

1.      جاوید اقبال مغل: مرکزی مجرم، ایک درمیانی عمر کا تاجر جس کی جنسی جرائم کی تاریخ تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے قتل پولیس کے تشدد اور معاشرتی بے حسی کا بدلہ تھے، جو اس کی ماں کی موت کے بعد شروع ہوا۔

2.      متاثرین: 100 لڑکے، زیادہ تر غریب سڑکوں پر رہنے والے، بھاگے ہوئے، یا یتیم۔ ان کی کمزوری—خاندانی تحفظ یا معاشرتی توجہ کی کمی—نے انہیں آسان شکار بنایا۔ والدین نے بعد میں ان کے کپڑوں کی شناخت کی، لیکن اکثر نے ابتدا میں گمشدگی کی اطلاع نہ دی۔

3.      ساتھی:

o    ساجد احمد: جاوید کا بنیادی ساتھی، ایک نوعمر جو اس کے ساتھ رہتا اور شکاروں کو راغب کرنے میں مدد کرتا تھا۔ وہ جیل میں جاوید کے ساتھ مرا۔

o    دیگر نوعمر لڑکے: چار ساتھیوں—عشاق، ارباب، اور دو دیگر—نے مدد کی۔ ایک کی حراست میں موت ہوئی (سرکاری طور پر کھڑکی سے گرنے سے، لیکن پولیس تشدد کا شبہ)، باقی کو کم عمری میں سزا دی گئی۔

4.      پولیس اور حکام:

o    لاہور پولیس: ابتدائی شکایات پر عمل نہ کرنے اور اعتراف کے بعد جاوید کو کھونے پر تنقید کا نشانہ بنی۔ اس کے خلاف پچھلا تشدد اس کے بدلے کا محرک بنا۔

o    وزیر داخلہ معین الدین حیدر: سزائے موت کی وحشت کے خلاف تھے، انسانی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسے چیلنج کیا جائے گا۔

5.      جج اللہ بخش: مقدمے کی صدارت کی اور عوامی غم و غصے کے تحت سخت سزا سنائی، جو شرعی اصولوں سے متاثر تھی۔

6.      میڈیا:

o    خوار نعیم ہاشمی: جنگ کے چیف نیوز ایڈیٹر، جنہوں نے اعترافی خط وصول کیا اور جاوید کی گرفتاری ممکن بنائی۔

o    اخبار جنگ: کہانی شائع کی، شکاروں کے نام اور تصاویر چھاپیں، جس سے عوامی ردعمل بڑھا۔

7.      متاثرین کے خاندان: 70 سے زائد والدین نے گواہی دی، اپنے بچوں کے کپڑوں کی شناخت کی۔ ان کا غم کیس کا جذباتی پہلو بنا، لیکن ان کی ابتدائی بے توجہی معاشرتی مسائل کو نمایاں کرتی ہے۔

جاوید اقبال کی ذہنی نفسیات کا تجزیہ

جاوید اقبال کی نفسیات سیریل کلرز کی عام خصوصیات سے ملتی ہے، جن میں سائیکوپیتھی، انتقام، اور کنٹرول کی خواہش شامل ہیں۔ یہاں اس کا تجزیہ پیش ہے:

1.      سائیکوپیتھک خصوصیات:

o    ہمدردی کی کمی: 100 بچوں کو منظم طریقے سے قتل کرنا اور ان کی تفصیلات بے رحمی سے لکھنا ہمدردی کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

o    خود پسندی: اس کا اعتراف اور خودسپردگی شہرت کی خواہش کو دکھاتی ہے، جیسے اس نے کہا کہ وہ 500 قتل کر سکتا تھا لیکن 100 پر رکا۔

o    ہیرا پھیری: شکاروں کو راغب کرنے کے لیے دلکشی، کاروبار (جیسے ویڈیو گیم پارلر)، اور تحائف کا استعمال اس کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔

2.      انتقامی خیالات:

o    اس نے دعویٰ کیا کہ قتل پولیس کے تشدد اور معاشرے کے خلاف بدلہ تھے، جو اس کی ماں کی موت کے بعد شروع ہوا۔ ماں سے گہری وابستگی اور اس کی موت نے اسے “100 ماؤں کو رلانے” کے مشن پر لگا دیا۔

o    نفسیاتی طور پر، یہ “موت کی جبلت” (Thanatos) کو دکھاتا ہے، جو اس کے ضمیر پر حاوی ہو گئی۔

3.      جنسی وحشت اور پیڈوفیلیا:

o    قتل سے پہلے زیادتی جنسی وحشت اور تسلط کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔ کم عمر لڑکوں کو نشانہ بنانا پیڈوفیلیا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو شاید پچھلے تجربات سے پیدا ہوا۔

4.      کنٹرول اور ترتیب:

o    بالکل 100 قتل، ہر ایک کی دستاویزات، اور لاشوں کو تحلیل کرنا کنٹرول کی شدید خواہش کو دکھاتا ہے، شاید پچھلی بے بسی کا بدلہ۔

5.      محرک واقعہ:

o    1998ء میں ایک مساج کرنے والے کے حملے نے اسے زخمی کیا، جس نے اس کے انتقام اور شہرت کے جنون کو بڑھایا۔ ماں کی موت کے ساتھ یہ اس کی قاتلانہ مہم کا آغاز بنا۔

ایسی نفسیات کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے؟

جاوید جیسے لوگوں کا علاج ان کی پیچیدہ ذہنی حالت کی وجہ سے مشکل ہے۔ یہاں ممکنہ طریقوں اور ان کی حقیقت پر بحث ہے:

1.      چیلنجز:

o    سائیکوپیتھی: اعلیٰ سائیکوپیتھک درجہ (جیسے Hare Psychopathy Checklist) علاج کے کم امکانات کو دکھاتا ہے۔ ہمدردی کی کمی اور ہیرا پھیری تھراپی کو مشکل بناتی ہے۔

o    گہرے خیالات: جاوید کے انتقام اور وحشت کے خیالات برسوں سے مضبوط تھے۔ عمل میں آنے کے بعد انہیں ختم کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

o    ابتدائی مداخلت کی کمی: 1980ء اور 1990ء کی شکایات پر عمل نہ ہوا، جو اس کے بڑھنے کو روک سکتا تھا۔

2.      ممکنہ طریقے:

o    کوگنیٹو بیہیویئرل تھراپی (CBT): غلط عقائد (مثلاً انتقام کا جواز) اور جذباتی کنٹرول پر کام کر سکتی ہے، لیکن اس کے لیے تبدیلی کی خواہش ضروری ہے، جو جاوید میں نہ تھی۔

o    دوائیں: اینٹی ڈیپریسنٹس یا اینٹی سائیکوٹکس غصہ یا جنون کو کم کر سکتے ہیں، لیکن سائیکوپیتھی یا وحشت کو حل نہیں کرتے۔

o    روک تھام: جنسی جرائم، تنہائی، یا غصے کے ابتدائی آثار کی شناخت اور لازمی تھراپی سے بچاؤ ممکن ہے۔ جاوید کے کیس میں یہ غائب تھا۔

o    کنٹرولڈ بحالی: طویل قید کے ساتھ تھراپی خطرے کو کم کر سکتی ہے، لیکن مکمل علاج مشکل ہے۔

3.      حقیقی امکانات:

o    جاوید جیسے سیریل کلرز، جو برسوں تک اپنے جنون پر عمل کرتے ہیں، کے لیے “علاج” عملی طور پر ناممکن ہے۔ روک تھام—ابتدائی مداخلت اور معاشرتی اصلاحات (بچوں کا تحفظ، قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری)—زیادہ اہم ہے۔

o    اس کی موت—خودکشی ہو یا قتل—نے علاج یا مطالعے کا امکان ختم کر دیا۔

4.      نتیجہ:

o    نفسیات ابھی تک جاوید جیسے کیسز کا مکمل علاج نہیں دے سکتی۔ قید اور خطرے کی کمی زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کا کیس ایک سبق ہے کہ معاشرے کو اپنے کمزور طبقات کی حفاظت پر توجہ دینی چاہیے۔

سزا اور انجام

جاوید کا مقدمہ دو ماہ تک چلا۔ 105 گواہوں نے گواہی دی، جن میں 73 والدین بھی شامل تھے جن کے بچوں کو جاوید نے مارا تھا۔ عدالت نے اسے سو بار سزائے موت سنائی—اسے حکم دیا گیا کہ اسے اسی زنجیر سے گلا گھونٹا جائے جس سے اس نے بچوں کو مارا، اس کے جسم کے سو ٹکڑے کیے جائیں، اور پھر انہیں ایسڈ میں جلا دیا جائے۔

لیکن یہ سزا کبھی پوری نہ ہو سکی۔ 8 اکتوبر 2001ء کو، جاوید اور اس کا ایک ساتھی جیل میں مردہ پائے گئے۔ سرکاری طور پر کہا گیا کہ انہوں نے خودکشی کی، لیکن بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ انہیں جیل کے اندر قتل کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جاوید اقبال کی کہانی ختم ہو گئی، لیکن اس کے جرائم کا داغ پاکستانی معاشرے پر آج تک باقی ہے۔

سبق

جاوید اقبال کی کہانی صرف ایک قاتل کی کہانی نہیں، بلکہ ایک معاشرے کی ناکامی کی کہانی ہے۔ ان بچوں کی کوئی تلاش نہ ہوئی جنہیں وہ لے گیا۔ اس کیس نے یہ سوال اٹھایا کہ ہم اپنے سب سے کمزور طبقے—بچوں—کی حفاظت کیوں نہ کر سکے؟ جاوید اقبال ایک وحشی تھا، لیکن اس کی وحشت کو پنپنے کا موقع اس معاشرے نے دیا جو اپنے بچوں کو بھول گیا تھا۔

  

ہفتہ، 8 مارچ، 2025

عورت مارچ پاکستان: خواتین کا عالمی یوم خواتین کو قومی تعطیل تسلیم کرنے کا مطالبہ

 

Pakistan Women's March Image

عورت مارچ پاکستان: خواتین کا عالمی یوم خواتین کو قومی تعطیل تسلیم کرنے کا مطالبہ

آج، 7 مارچ 2025 کو، پاکستان بھر میں "عورت مارچ" کے منتظمین اور شریک خواتین نے عالمی یوم خواتین، جو ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے، کو قومی تعطیل قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ کل بروز ہفتہ کو منعقد ہونے والے سالانہ عورت مارچ سے ایک دن پہلے سامنے آیا، جو خواتین کے حقوق اور مساوات کے لیے آواز اٹھانے کا ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔

اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، عورت مارچ کے منتظمین نے کہا کہ "عالمی یوم خواتین کو قومی تعطیل قرار دینا خواتین کے کردار اور ان کے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی حقوق کو تسلیم کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔" انہوں نے مزید کہا کہ جنسی بنیاد پر تشدد کو قومی ایمرجنسی قرار دیا جائے اور ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

کراچی، لاہور، اور اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں کل عورت مارچ کے جلوس نکالے جائیں گے، جہاں خواتین، ٹرانسجینڈر افراد، اور دیگر پسماندہ طبقات اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے۔ منتظمین کے مطابق، اس سال مارچ کا موضوع "امید اور مزاحمت" ہے، جو موجودہ چیلنجوں کے باوجود خواتین کی جدوجہد کو اجاگر کرتا ہے۔

حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس دن کو سرکاری طور پر تسلیم کرے تاکہ خواتین کے مسائل پر قومی سطح پر توجہ دی جا سکے۔ تاہم، کچھ حلقوں کی طرف سے اس مطالبے پر تنقید بھی سامنے آئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ مغربی ایجنڈے کی ترویج ہے۔ دوسری جانب، انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس اقدام کی حمایت کی اور اسے خواتین کی آواز کو مضبوط کرنے کی طرف ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔

عورت مارچ کے شرکاء نے کہا کہ وہ کل کے جلوس میں بھرپور شرکت کریں گے اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے پرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔


جمعہ، 7 مارچ، 2025

مصطفیٰ عامر قتل کیس ۔مکمل کہانی ۔تازہ ترین اپ ڈیٹس کے ساتھ

 

mustafa-amir-murder-case-generated_image

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بی بی اے کے طالب علم مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کا واقعہ پاکستان کے سب سے زیادہ زیرِ بحث کیسز میں سے ایک بن چکا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ 6 جنوری 2025 کو شروع ہوا اور اس کے بعد سے اب تک اس کیس میں متعدد چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ آئیے اس کیس کی مکمل کہانی اور تازہ ترین پیش رفت کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

واقعہ کا آغاز

6 جنوری 2025 کو مصطفیٰ عامر ڈیفنس کے علاقے سے لاپتہ ہو گئے۔ ان کی گمشدگی کے پانچ دن بعد، 11 جنوری کو بلوچستان کے علاقے ہب کے قریب ایک جلی ہوئی گاڑی سے ایک ایسی لاش ملی جو بری طرح جھلس چکی تھی کہ اس کی شناخت فوری طور پر ممکن نہ تھی۔ بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق ہوئی کہ یہ لاش مصطفیٰ عامر کی تھی، جس کے نمونے ان کی والدہ کے ڈی این اے سے میچ کیے گئے۔ اس واقعے نے کراچی کے شہریوں کو صدمے میں ڈال دیا اور پولیس پر فوری تفتیش کا دباؤ بڑھ گیا۔

بنیادی ملزم ۔ارمغان اور واقعے کی وجہ

تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ مصطفیٰ کے قتل کا مرکزی ملزم ان کا دوست ارمغان تھا۔ دونوں کے درمیان نیو ایئر ایو (31 دسمبر 2024) پر ایک لڑکی، مرشا شاہد، کے حوالے سے شدید جھگڑا ہوا تھا۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو 6 جنوری کو اپنے گھر بلایا۔ پولیس رپورٹس کے مطابق، ارمغان نے مصطفیٰ کو تین گھنٹوں تک لوہے کی سلاخوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے منہ کو ٹیپ سے بند کیا، اور پھر انہیں نیم بےہوشی کی حالت میں اپنی گاڑی کے ڈگی میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ارمغان اور اس کے ساتھی شیراز نے گاڑی کو بلوچستان کے علاقے دُریجی لے جا کر آگ لگا دی، جس سے مصطفیٰ کی موت ہو گئی۔

مرشا شاہد کا کردار

مرشا شاہد، جس پر جھگڑے کی وجہ بننے کا الزام ہے، 12 جنوری کو ملک سے فرار ہو گئیں۔ مصطفیٰ کی والدہ نے مرشا پر الزام لگایا کہ وہ اس قتل میں ملوث ہیں اور ان کے بیٹے کی موت کا سبب بنیں۔ پولیس نے انٹرپول کے ذریعے مرشا سے رابطے کی کوشش کی، کیونکہ ان کا بیان اس کیس کے لیے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، اب تک وہ قانون کے ہاتھوں میں نہیں آئیں۔

ارمغان کی مجرمانہ سرگرمیاں

تفتیش سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ ارمغان صرف اس قتل تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ کافی طویل ہے۔ 2019 سے 2024 تک اس کے خلاف درخشاں، ساحل، گزری، بوٹ بیسن، اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے تھانوں میں دہشت گردی، اقدام قتل، منشیات کی اسمگلنگ، اور دھمکیوں کے متعدد مقدمات درج ہیں۔ اس نے اپنے گھر سے ایک غیر قانونی سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر چلایا، جس کے ذریعے غیر ملکی کلائنٹس سے کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی کی گئی۔ اس کے علاوہ، وہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے منی لانڈرنگ میں بھی ملوث تھا اور اس کے گھر سے تین شیر کے بچوں کو بھی غیر قانونی طور پر رکھا گیا تھا۔

شیراز کا کردار اور اعتراف

ارمغان کا قریبی دوست شیراز، جو اس کیس کا اہم گواہ اور شریک ملزم ہے، نے پولیس کو بتایا کہ اس کے سامنے ہی ارمغان نے مصطفیٰ کو قتل کیا۔ شیراز کے مطابق، 6 جنوری کی رات مصطفیٰ ارمغان کے بنگلے پر آیا، جہاں جھگڑے کے بعد ارمغان نے اسے لوہے کی چھڑ سے مارا اور پھر اسے گاڑی میں ڈال کر بلوچستان لے گیا۔ شیراز نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ وہ مصطفیٰ کو بچانے کے قابل نہیں تھا اور اسے اعترافی بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ "اگر اعتراف کر لو گے تو سزا کم ہو گی۔"

پولیس کی ابتدائی ناکامی اور تفتیش میں تبدیلی

مصطفیٰ کی والدہ، وجیہہ عامر، نے پولیس پر شدید تنقید کی کہ انہوں نے ابتدائی طور پر اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس فوری حرکت میں آتی تو شاید ان کا بیٹا بچ جاتا۔ 39 دن تک پولیس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ مصطفیٰ کا جھلسا ہوا جسم ہب میں مل چکا ہے۔ بعد میں کیس کو کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (CIA) کے سپرد کیا گیا، اور متعلقہ SHO اور تفتیشی افسر کو معطل کر دیا گیا۔ کراچی کے پولیس چیف نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی، جس کی سربراہی ڈی آئی جی مقدس حیدر کر رہے ہیں، تاکہ اس کیس کی مکمل چھان بین کی جا سکے۔

تازہ ترین پیش رفت ۔مارچ 2025 تک

  • 4 مارچ 2025: ایف آئی اے کی سائبر کرائم اور اینٹی منی لانڈرنگ ٹیموں نے ارمغان اور شیراز سے تفتیش شروع کی، لیکن ارمغان نشے کی حالت میں واضح جوابات نہ دے سکا۔ اس کے الیکٹرانک آلات کی فرانزک جانچ ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
  • 3 مارچ 2025: شیراز نے جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ کی عدالت میں گواہی دی کہ وہ واحد چشم دید گواہ ہے اور ارمغان نے اس کے سامنے مصطفیٰ کو قتل کیا۔
  • 28 فروری 2025: دو گواہوں، غلام مصطفیٰ اور زوہیب نے عدالت میں ارمغان اور شیراز کو شناخت کیا، جبکہ ملزم عدالت میں ہنستے رہے۔ پولیس نے بتایا کہ ارمغان کے والد نے ایک گواہ کو دھمکی دی تھی، جس پر عدالت نے قانونی کارروائی کا حکم دیا۔
  • 23 فروری 2025: مشہور اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جنہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ارمغان کو منشیات فروخت کرتے تھے۔

عدالتی کارروائی اور عوامی ردعمل

اس کیس میں انسداد دہشت گردی اے ٹی سی نے ارمغان اور شیراز کے ریمانڈ میں متعدد بار توسیع کی۔ ارمغان کے والد، کامران  قریشی نے عدالت میں ہنگامہ آرائی کی اور پولیس پر ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا۔ دوسری طرف، مصطفیٰ کے والدین نے وزیراعظم، چیف جسٹس، اور آرمی چیف سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ڈیفنس کے رہائشیوں نے بھی علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس نہ صرف ایک دلخراش واقعہ ہے بلکہ کراچی میں بڑھتی ہوئی جرائم، منشیات، اور غیر قانونی سرگرمیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ارمغان جیسے ملزم کے پیچیدہ مجرمانہ نیٹ ورک نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اب تک کی تفتیش سے واضح ہے کہ یہ کیس صرف ایک قتل سے بڑھ کر ہے—یہ ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کی کہانی ہے جس کی جڑیں گہری ہیں۔ عدالتوں اور پولیس سے عوام کی توقع ہے کہ اس کیس میں انصاف کو یقینی بنایا جائے گا، تاکہ مصطفیٰ کے خاندان کو سکون مل سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

یہ تحریر تازہ ترین معلومات (6 مارچ 2025 تک) کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 


جمعرات، 6 مارچ، 2025

جدید معلومات اور ٹیکنالوجی ۔ ایک نئی دنیا کا آغاز

 

modern information and technology image

آج کے دور میں معلومات اور ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں ہر لمحہ نئی ایجادات اور ترقی سامنے آ رہی ہے۔ یہ مضمون نہ صرف اس موضوع پر مکمل معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اس میں حوالہ جات بھی شامل ہیں۔ انٹرنیٹ، مصنوعی ذہانت (AI)، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں بدل دیا ہے۔ آئیے اس موضوع پر کچھ اہم پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح یہ جدید ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔

معلومات کا انقلاب

انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی کو ناقابل یقین حد تک آسان بنا دیا ہے۔ آج کل، کوئی بھی شخص اپنے سمارٹ فون کے ذریعے چند سیکنڈز میں دنیا بھر کی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔ گوگل جیسے سرچ انجن، آن لائن کورسز، اور ای-کتب نے تعلیم کو ہر ایک کے لیے قابل رسائی بنا دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جعلی خبروں اور غلط معلومات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے، جس سے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔


Search On Mobile Phone

مصنوعی ذہانت اور ہمارا مستقبل

اور تمام شعبوں میں اے آئی سے چلنے والے چیٹ بوٹس مصنوعی ذہانت آج کی سب سے بڑی تکنیکی ترقی ہے۔ یہ نہ صرف ہمارے روزمرہ کے کاموں کو آسان بنا رہے ہیں۔ اس سے طب، تعلیم، اور تمام صنعتوں میں بھی انقلاب  برپا ہو رہاہے۔  اس میں بھی کوئی شک نہیں  کہ جہاں مصنوعی ذہانت لوگوں کے تمام سوالوں کا جوابات دینے کے علاوہ ان کے مسائل کا حل بھی پیش کر رہے ہیں وہاں ان کا بھرپور غلط استمال بھی ہو رہا ہے۔پاکستان اور دنیا بھر میں اس پر بھی بحث جاری ہے کہ مصنوعی ذہانت کے آنے سے لوگوں کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں جس سے دنیا میں بیروزگاری عام ہونے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔

Robot and Human

ڈیجیٹل معیشت اور مواقع

جدید ٹیکنالوجی نے معیشت کو بھی نئے رنگ میں ڈھال دیا ہے۔ ای-کامرس، فری لانسنگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبوں نے لاکھوں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے کاروبار شروع کر رہے ہیں اور عالمی منڈی تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے ڈیجیٹل خواندگی اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ابھی بھی ایک چیلنج ہے۔

جدید معلومات اور ٹیکنالوجی ایک سکے کے دو رخ کی طرح ہے۔ یہ ہمیں لامحدود مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن اس کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ مستقبل وہی جیتے گا جو اس ٹیکنالوجی کو سمجھے گا اور اسے مثبت طریقے سے استعمال کرے گا۔ آئیے ہم سب مل کر اس نئے دور کا حصہ بنیں اور اسے اپنے لیے بہتر بنائیں۔


Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...