جمعہ، 7 مارچ، 2025

مصطفیٰ عامر قتل کیس ۔مکمل کہانی ۔تازہ ترین اپ ڈیٹس کے ساتھ

 

mustafa-amir-murder-case-generated_image

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بی بی اے کے طالب علم مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کا واقعہ پاکستان کے سب سے زیادہ زیرِ بحث کیسز میں سے ایک بن چکا ہے۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ 6 جنوری 2025 کو شروع ہوا اور اس کے بعد سے اب تک اس کیس میں متعدد چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ آئیے اس کیس کی مکمل کہانی اور تازہ ترین پیش رفت کو تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

واقعہ کا آغاز

6 جنوری 2025 کو مصطفیٰ عامر ڈیفنس کے علاقے سے لاپتہ ہو گئے۔ ان کی گمشدگی کے پانچ دن بعد، 11 جنوری کو بلوچستان کے علاقے ہب کے قریب ایک جلی ہوئی گاڑی سے ایک ایسی لاش ملی جو بری طرح جھلس چکی تھی کہ اس کی شناخت فوری طور پر ممکن نہ تھی۔ بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق ہوئی کہ یہ لاش مصطفیٰ عامر کی تھی، جس کے نمونے ان کی والدہ کے ڈی این اے سے میچ کیے گئے۔ اس واقعے نے کراچی کے شہریوں کو صدمے میں ڈال دیا اور پولیس پر فوری تفتیش کا دباؤ بڑھ گیا۔

بنیادی ملزم ۔ارمغان اور واقعے کی وجہ

تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ مصطفیٰ کے قتل کا مرکزی ملزم ان کا دوست ارمغان تھا۔ دونوں کے درمیان نیو ایئر ایو (31 دسمبر 2024) پر ایک لڑکی، مرشا شاہد، کے حوالے سے شدید جھگڑا ہوا تھا۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ ارمغان نے مصطفیٰ کو 6 جنوری کو اپنے گھر بلایا۔ پولیس رپورٹس کے مطابق، ارمغان نے مصطفیٰ کو تین گھنٹوں تک لوہے کی سلاخوں سے تشدد کا نشانہ بنایا، ان کے منہ کو ٹیپ سے بند کیا، اور پھر انہیں نیم بےہوشی کی حالت میں اپنی گاڑی کے ڈگی میں ڈال دیا۔ اس کے بعد ارمغان اور اس کے ساتھی شیراز نے گاڑی کو بلوچستان کے علاقے دُریجی لے جا کر آگ لگا دی، جس سے مصطفیٰ کی موت ہو گئی۔

مرشا شاہد کا کردار

مرشا شاہد، جس پر جھگڑے کی وجہ بننے کا الزام ہے، 12 جنوری کو ملک سے فرار ہو گئیں۔ مصطفیٰ کی والدہ نے مرشا پر الزام لگایا کہ وہ اس قتل میں ملوث ہیں اور ان کے بیٹے کی موت کا سبب بنیں۔ پولیس نے انٹرپول کے ذریعے مرشا سے رابطے کی کوشش کی، کیونکہ ان کا بیان اس کیس کے لیے انتہائی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ تاہم، اب تک وہ قانون کے ہاتھوں میں نہیں آئیں۔

ارمغان کی مجرمانہ سرگرمیاں

تفتیش سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ ارمغان صرف اس قتل تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ کافی طویل ہے۔ 2019 سے 2024 تک اس کے خلاف درخشاں، ساحل، گزری، بوٹ بیسن، اور اینٹی نارکوٹکس فورس کے تھانوں میں دہشت گردی، اقدام قتل، منشیات کی اسمگلنگ، اور دھمکیوں کے متعدد مقدمات درج ہیں۔ اس نے اپنے گھر سے ایک غیر قانونی سافٹ ویئر ہاؤس اور کال سینٹر چلایا، جس کے ذریعے غیر ملکی کلائنٹس سے کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی کی گئی۔ اس کے علاوہ، وہ کرپٹو کرنسی کے ذریعے منی لانڈرنگ میں بھی ملوث تھا اور اس کے گھر سے تین شیر کے بچوں کو بھی غیر قانونی طور پر رکھا گیا تھا۔

شیراز کا کردار اور اعتراف

ارمغان کا قریبی دوست شیراز، جو اس کیس کا اہم گواہ اور شریک ملزم ہے، نے پولیس کو بتایا کہ اس کے سامنے ہی ارمغان نے مصطفیٰ کو قتل کیا۔ شیراز کے مطابق، 6 جنوری کی رات مصطفیٰ ارمغان کے بنگلے پر آیا، جہاں جھگڑے کے بعد ارمغان نے اسے لوہے کی چھڑ سے مارا اور پھر اسے گاڑی میں ڈال کر بلوچستان لے گیا۔ شیراز نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ وہ مصطفیٰ کو بچانے کے قابل نہیں تھا اور اسے اعترافی بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ "اگر اعتراف کر لو گے تو سزا کم ہو گی۔"

پولیس کی ابتدائی ناکامی اور تفتیش میں تبدیلی

مصطفیٰ کی والدہ، وجیہہ عامر، نے پولیس پر شدید تنقید کی کہ انہوں نے ابتدائی طور پر اس کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس فوری حرکت میں آتی تو شاید ان کا بیٹا بچ جاتا۔ 39 دن تک پولیس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ مصطفیٰ کا جھلسا ہوا جسم ہب میں مل چکا ہے۔ بعد میں کیس کو کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (CIA) کے سپرد کیا گیا، اور متعلقہ SHO اور تفتیشی افسر کو معطل کر دیا گیا۔ کراچی کے پولیس چیف نے ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی، جس کی سربراہی ڈی آئی جی مقدس حیدر کر رہے ہیں، تاکہ اس کیس کی مکمل چھان بین کی جا سکے۔

تازہ ترین پیش رفت ۔مارچ 2025 تک

  • 4 مارچ 2025: ایف آئی اے کی سائبر کرائم اور اینٹی منی لانڈرنگ ٹیموں نے ارمغان اور شیراز سے تفتیش شروع کی، لیکن ارمغان نشے کی حالت میں واضح جوابات نہ دے سکا۔ اس کے الیکٹرانک آلات کی فرانزک جانچ ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
  • 3 مارچ 2025: شیراز نے جوڈیشل مجسٹریٹ ساؤتھ کی عدالت میں گواہی دی کہ وہ واحد چشم دید گواہ ہے اور ارمغان نے اس کے سامنے مصطفیٰ کو قتل کیا۔
  • 28 فروری 2025: دو گواہوں، غلام مصطفیٰ اور زوہیب نے عدالت میں ارمغان اور شیراز کو شناخت کیا، جبکہ ملزم عدالت میں ہنستے رہے۔ پولیس نے بتایا کہ ارمغان کے والد نے ایک گواہ کو دھمکی دی تھی، جس پر عدالت نے قانونی کارروائی کا حکم دیا۔
  • 23 فروری 2025: مشہور اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، جنہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ارمغان کو منشیات فروخت کرتے تھے۔

عدالتی کارروائی اور عوامی ردعمل

اس کیس میں انسداد دہشت گردی اے ٹی سی نے ارمغان اور شیراز کے ریمانڈ میں متعدد بار توسیع کی۔ ارمغان کے والد، کامران  قریشی نے عدالت میں ہنگامہ آرائی کی اور پولیس پر ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا۔ دوسری طرف، مصطفیٰ کے والدین نے وزیراعظم، چیف جسٹس، اور آرمی چیف سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ ڈیفنس کے رہائشیوں نے بھی علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی پر تشویش کا اظہار کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری ایکشن کا مطالبہ کیا۔

مصطفیٰ عامر قتل کیس نہ صرف ایک دلخراش واقعہ ہے بلکہ کراچی میں بڑھتی ہوئی جرائم، منشیات، اور غیر قانونی سرگرمیوں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ارمغان جیسے ملزم کے پیچیدہ مجرمانہ نیٹ ورک نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اب تک کی تفتیش سے واضح ہے کہ یہ کیس صرف ایک قتل سے بڑھ کر ہے—یہ ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کی کہانی ہے جس کی جڑیں گہری ہیں۔ عدالتوں اور پولیس سے عوام کی توقع ہے کہ اس کیس میں انصاف کو یقینی بنایا جائے گا، تاکہ مصطفیٰ کے خاندان کو سکون مل سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔

یہ تحریر تازہ ترین معلومات (6 مارچ 2025 تک) کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...