جمعرات، 7 ستمبر، 2006

باندر کِلا

دنیا میں بہت سے کھیل ایسے ہیں جو زمانہِ قدیم سے چلے آرہے ہیں ۔ ان میں کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جو صرف علاقائی سطح پر کھیلے جاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ان قدیم کھیلوں میں ہمیں صرف چند کھیل ہی ایسے ملیں گے جن کی اپنی اصل ابھی تک باقی ہے کیونکہ باقی کھیلوں کو چاہے وہ علاقائی ہوں یا بین الاقوامی جدیدیت کے آ جانے کی وجہ سے لوگ بھلا چکے ہیں۔
علاقائی کھیلوں میں یوں تو بہت سے کھیل ایسے تھے جو اپنی مثال آپ تھے اور اُن کھیلوں میں سے ایک کھیل بَاندر کِلا بھی تھا۔ باندر کِلا پنجابی زبان کا لفظ ہے ،اردو میں ہم اس کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ “ بندر کھونٹا“ اردو میں “ باندر “ کو بندر اور “ کلا “ کو کھونٹا کہا جاتا ہے۔کھونٹا یا کِلا وہ ہوتا ہے جس کا ایک حصہ پتلا ہوتا ہے اور یہ لکڑی کا ہوتا ہے ہے اور اسے زمیں میں گاڑ کر اُس سے کوئی چیز مثلاً گائے ، بھینس وغیرہ یعنی جانور باندھ دئے جاتے ہیں۔
اس کھیل میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ بہت سے لڑکے آپس میں جمع ہو کر آپس میں قرعہ نکالتے ہیں پھر جس لڑکے کا نام نکل آتا ہے اس کے ہاتھ میں رسی باندھ کر اسے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور باقی سارے لڑکے اپنی اپنی جوتیاں اتار کر اس کھونٹے کے پاس رکھ دیتے ہیں۔اب اس باندر ( بندر ) یعنی لڑکے نے چاروں طرف گھوم کر کسی لڑکے کو جوتیاں نہیں اُٹھانے دینی اور سب لڑکوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی طرح ایک ایک کر کے یا پاؤں مار کر جوتیوں کو کھونٹے سے دور کر کے اُٹھا لی جائیں۔
اگر تو وہ باندر ( بندر ) یعنی لڑکا کسی لڑکے کو پکڑ لیتا ہے تو باندر بننے کی باری اس کی آ جاتی اور اگر لڑکے ساری جوتیاں اُٹھا لیتے ہیں تو پھر اُن جوتیوں سے باندر کی وہ درگت بنے گی کہ خدا کی پناہ۔
جو سیانا ( عقل مند ) باندر ہوتا ہے وہ تو باندر بنتے ہی اپنے ہاتھ کی رسی کو کھول کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے اور ایسا موقع آتے ہی کہ جب اُس کی درگت بنے کِلے ( کھونٹے ) سے ایسا بھاگتا ہے کہ ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔
مگر بابا عیدو اپنی ہی ہانکتا ہے ، بات کوئی بھی ہو وہ مثال دینے سے باز نہیں رہتا، کہتا ہے ،
“ بندر کے ہاتھ میں اگر ماچس آ جائے تو وہ جنگل کو ہی آگ لگائے گا“
ویسے سوچا جائے تو بابا عیدو بھی ٹھیک ہی کہتا ہے ، ماچس تو باندر کے ہاتھ میں ہی ہے۔

7 تبصرے:

  1. اس کھيل ميں باندر کو ايک ٹارگٹ ديا جاتا ہے اگر وہ اس ٹارگٹ کو دوڑ کر چھو لے تو پھر اس کي پٹائي ختم کردي جاتي ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں بچپن میں دوڑنے میں بہت تیز ہوتا تها ـ
    پیٹهو گول گرم میں الٹے پاؤں دوڑتے هوئے گیند سے بچنے میں میں ماہر تها ـ
    باندر کلا میں جب دو تین جوتیاں ره جاتی تهیں تو میں بهاگ جایا کر تها ـ مگر بعد میں کچھ شر پسند پہلے ہي تارگٹ کے راستے میں کهڑے ہو جاتے تهے ـ
    تو بس جی پهر باندر کٹ کا تو آپ جانتے هی هیں ـ
    اور
    بری ہوتی تهی ـ

    جواب دیںحذف کریں
  3. میں بچپن میں یہ کھیل کھیلتا رہا ہوں اور اب بھی جب جب بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملتا ہے میں ضرور کھیلتا ہوں ۔

    میں نے اپنا نیا بلاگ بنایا ہے ۔ جس کا پتا درج ذیل ہے ۔

    http://www.shameelone.com/

    آپ سے گزارش ہے کہ آپ اپنے بلاگ میرے بلاگ کا پتا اس نۓ دیے گۓ ربط کے مطابق کر لیں ۔ نیز میں نے اپنے پسندیدہ اردو بلاگز میں آپ کے بلاگ کو بھی جمع کر لیا ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. معاف کیجیے گا ۔ میرے پہلے والے کمینٹ میں ، میں نے اپنا نام غلطی سے شیمل لکھا ہے ۔ میرا درست نام ' شمیل " ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. جی میرا پاکستان جی آپ نے صحیح فرمایا ہے۔جان اس کی تبھی چھوٹتی تھی جب وہ اس کو ہاتھ لگا لیتا

    جواب دیںحذف کریں
  6. خاور پا جی ۔ اس کا مطلب ہے آپ نے کافی باندر کُٹ کھائی ہے۔ویسے ایسی کُٹ کو گیدڑ کُٹ بھی کہتے ہیں اور گیدڑ کُٹ لگانا ہمارے پاکستانی پولیس والوں کی خصوصی تربیت میں سے ایک تربیت ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. شمیل پا جی اس کا مطلب ہے آپ ابھی بھی بچوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے ہیں۔ذرا خیال سے کہیں آپ ان کے قابو آگئے تو آپ کو گیدڑ کُٹ بھی لگ سکتی ہے۔
    میرے بلاگ کو اپنے بلاگ میں جگہ دینے کا شکریہ ورنہ یار لوگوں نے تو ہمارا ربط ہی ہٹا دیا تھا ایک آپ ہیں کہ ہماری عزت افزائی کر رہے ہیں۔بہرحال آپ کا شکریہ۔ہم نے بھی آپ کے بلاگ کو اردو راکٹ میں پرو دیا ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...