جمعہ، 15 ستمبر، 2006

پاگل کتا

ابھی کچھ عر صہ پیشتر ہی کتوں کی انجمن نے اپنے ہر دلعزیز سردار کے مرنے کے بعد پاگل کتے کو اپنا سردار نامزد کیا ۔یاد رہے کہ آج تک کتوں میں جتنے بھی سردار گذرے ہیں وہ کتوں کی انجمن کے علاوہ انسانوں کی انجمن میں بھی یکساں مقبول رہے تھے۔مگر پاگل کتے کے آنے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو چکے ۔اب کتوں نے بھی انسانوں پر سرعام بھونکنا شروع کر دیا ہے۔پاگل کتے نے ان کو ان کی اوقات بتا دی ہے اور کہا ہے کہ کتوں اور انسانوں کا کوئی میل نہیں ہے۔
سننے میں آیا ہے کہ بچپن سے ہی پاگل کتے کو انسانوں سے چڑ تھی اس لئے سرداری کی پگڑی پہناتے ہوئے بھی کئی نامور کتوں سے اسکے سردار بننے کی شدید مخالفت کی تھی۔مگر پاگل کتے کا اثر رسوخ زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی ایک نہ سنی گئی۔
اب جبکہ پاگل کتے کی سرداری کا دور ہے اس لئے میرا انسانوں کو یہی مشورہ ہے کہ کتوں سے بچ کر رہیں یہ نہ ہو کہ انہیں پیٹ میں چودہ ٹیکے لگوانا پڑجائیں۔
ویسے بھی استاد شیدا کہتا تھا کہ کتا گلی کا ہو یا محل کا گر کاٹ جائے تو ٹیکے لگوانا ہی پڑتے ہیں ۔

5 تبصرے:

  1. شیخو صاحب۔ کیا ڈرا رہے ہیں آپ بھی۔ کتا اگر xxxxxx ہو تو کیتنے ٹیکے لگیں گے؟

    ابھی xxxx xxxx کی پریڈ میں انہوں نے xxxx "کتوں" کی پریڈ بھی دکھائی تھی اور دکھایا تھا کے ہمارے کتے کسی سے کم نہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. bhaai kuta to kuta hi hota hay us ka to kaam hi bhonkna hay,pahlay suntay thay kay jo bhonktay hain woh kattay naheen laikin aaj kal to yeh haal hay pahlay kattay hain phir bhonktay hain,or katwanay walay unhain piar say roti daltay rahtay hain,takay taqat pakar kar or zoor zoor say bhonkain or katain,

    جواب دیںحذف کریں
  3. شہزادے گڈو آپ غلط پہنچے ، لگتا ہے آپ آج کل دنیا کے حالات سے بے خبر ہیں۔آپ میری تحریر کو دنیا کے حالات کو مدِ نظر رکھ کر پڑھیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترمہ مہر افشاں صاحبہ
    سب سے پہلے تو اپنے اس چھوٹے سے بلاگ پر آپ کے پہلے تبصرے پر آپ کا شکریہ، آپ کا کہنا بجا ہے کہ کتے تو کتے ہی ہیں۔ویسے یہ ضرور سوچنے کی بات ہے کہ کاٹنے کے باوجود انسان ان کو روٹی ڈالنے سے باز نہیں آ رہے۔ خیر اس موضوع پر بھی لکھوں گا۔
    امید ہے آپ آئیندہ بھی اپنے مفید تبصروں سے نوازتی رہیں گی

    جواب دیںحذف کریں
  5. شیخو صاحب۔ دنیا کے حالات اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ ان کو ذہن میں رکھنا آسان نہیں۔

    بحرحال جس کتے کی آپ بات کر رہے ہیں، وہ طاقت میں بہت ذیادہ ہے، ہم اس کا کچھ نہیں کر سکتے، یہ بھونک کر انکاری کتا ہے اور افسوس تہ یہ ہے کہ "انسان" بھی برابر کے زمہ دار ہیں ایسے کتے کے بھونکنے کے۔ پھر سونے پر سہاگہ کتے کی چمڑی بھی سفید ہے، اور سفید چمڑی کتے کی ہو یا انسان کی یہاں اس کی پوجا کی جاتی ہے۔

    جہاں تک میں نے اوپر والا تبصرہ کیا تھا اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ کتا کتے کا بھائی ہوتا ہے، اس بھونکنے والے کتے کو منع کرنے لگیں گے تو ہمارا اپنا کتا ہی کاٹ کھائے گا۔

    امید ہے اب آپ میری بات کی تہ میں پہنچ گئے ہونگے

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...