لوگوں میں جہاں اچھی بری عادتیں دیکھنے کو ملتیں ہیں وہاں کچھ لوگوں میں ایسی غلیظ عادتیں بھی ہوتی ہیں جنہیں دیکھ کر کراہت محسوس ہوتی ہے ۔یہ لوگ جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں بہت سی ایسی غلیظ عادتوں کا شکار ہوتے ہیں جو کہ انتہائی کراہت آمیز ہیں ۔ان میں سے کچھ لوگ یہ حرکات عموما ‘‘ کسی بی قسم کی ٹینشن ‘‘ کے دوران کرتے ہیں ۔مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں میں یہ عادتیں بچپن سے ہی ہوتی ہیں ۔
ان عادتوں میں ہر وقت ناخن چباتے رہنا ، ہر وقت ناک میں انگلی ڈالے رکھنا ، ہر وقت تھوکتے رہنا یا کہ منہہ میں انگوٹھا یا انگلی کا چوستے رہنا شامل ہیں۔
منہہ میں انگوٹھے کے چوسنے کی عادت عموما بچپن میں ٩٩ پرسنٹ بچوں میں ہوتی ہے جو کہ وقت سے ساتھ ساتھ دو یا تین سال کی عمر میں ختم ہو جاتی ہے کسی کسی مرد یا عورت میں یہ عادت جوانی تک بھی قائم رہتی ہے مگر اس کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے
ناخن چبانے کی عادت عورت اور مرد میں کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے
ہر وقت اور ہر جگہ تھوکنے کی عادت زیادہ تر بچپن سے ہی شروع ہوتی ہے مگر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ جوانی میں بھی یہ عادت مرد و عورت میں بکثرت پائی گئی ہیں
ہر وقت ناک میں انگلی ڈالے رکھنا اور ناک نکالتے رہنا ۔۔۔ یہ عادت انتہائی کراہت آمیز ہے اور یہ عادت بچپن اور جوانی میں بہت سے مرد و عورتوں میں بکثرت پائی جاتی ہے۔
تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک لیبارٹری جانے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کا ایک ایکسرے ٹیکنشین دنیا مافہیا سے بے خبر ناک میں انگلی ڈالے بڑے مزے سے ناک نکال نکال کر کبھی کہیں اچھال رہا تھا اور کبھی کہیں ۔اور دیدہ دلیری اس کی دیکھئے کہ کبھی کبھار وہ ناک کو اپنی ہی قمیض پر بھی مل دیتا تھا۔ابھی میں اس کی حرکتیں دیکھ ہی رہا تھا کہ وہاں ایک نوجوان مریضہ ڈینٹل ایکسرے ( دانت کا ایکسرے ) کروانے کے لئے آئی ۔ایکسرے ٹیکنیشن بڑے مزے سے اُٹھا اور بغیر ہاتھ دھوئے اس کا دانت کا ایکسرے کر ڈالا ۔یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ دانت کا ایکسرے کرنے کے لئے متاثرہ دانت کے ساتھ انگلیوں سے ایکسرے فلم کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے ۔۔سوچتا ہوں کہ اگر اس مریضہ کو اس ایکسرے ٹیکنیشن کی اس غلیظ حرکت کا پتہ ہوتا تو گالیاں تو ایک طرف رہ گئیں کم از کم اس کو الٹیاں ضرور شروع ہو جاتیں
شیخو بلاگ میں تازہ نیوز ، ذاتی حالات زندگی ، معاشرتی پہلو اور تازہ ٹیکنیکل نیوز کے متعلق لکھا جاتا ہے
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Featured Post
جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی
جاوید اقبال: 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...

-
اساں چولا پایا عشقے دا اساں بنھ لئے گھنگرو یار دے دس کیہ کریے ایہناں اکھیاں دا وچ سُفنے چھمکاں مار دے اساں چیتر گروی رکھیا سی اج ہاڑ ک...
-
پاکستان بھر میں بارشوں کی رومانوی چھاؤں ۔ بارش کے اس خوبصورت موسم میں بوندوں کی زبانی پینو کافی شاپ کی کھڑکی کے پاس بیٹھی تھی، جہاں ...
-
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ بی بی اے کے طالب علم مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کا واقعہ پاکستان کے سب سے زیادہ زیرِ ...
اگر ایسی حرکت کوئی عورت کرتی تو اور بھی بری لگتی۔
جواب دیںحذف کریںویسے اکثر لوگ فارغ وقت میں ایسا کرتے ہیں۔
کچھ لوگ ایک اورغلاظت کرتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو الگ ٹوتھ برش خرید کر نہین دیتے اور اپنے ٹوتھ برش سے انہیں ٹوتھ برش کرنے پر مجبورکرتے ہیں،
جواب دیںحذف کریںاور کچھ غلیظ لوگ اپنی منگیتروں کو تو بات بے بات پیٹتے ہیں اور غیر لڑکیوں کو زبردستی کس کرتے پھرتے ہیں ،
اس سے بھی غلیظ بات تو یہ ہے کہ اپنی ان غلیظ حرکتوں کو فخر سے بیان کرتے ہیں،رتی بھر بھی شرمندہ نہیں ہوتے ،کوئی شرمندہ کرنے کی کوشش کرے تو اس ہی پر چڑھائی کردیتے ہیں!!!!!!