منگل، 14 مارچ، 2006

عجیب سے عجیب تر

صدر ایوب کا دور بھی عجیب تھا۔ چینی مہنگی ہو گئی لوگ سڑکوں پر آ کر ایوب کو گالیاں نکالنے لگے تو صدر ایوب چلا گیا۔

یحییٰ کا دور بھی عجیب تھا۔پاکستان کا ایک حصہ جدا ہو گیا اور خود یحییٰ شراب کے نشے میں دھت چین کی بانسری بجاتا رہا۔

بھٹو کا دور بھی عجیب تھا۔سب کو آزادی کا مطلب سمجھایا اور ہر شے پر حکومت کی اجارہ داری بھی قائم کی ، لوگوں کو لائینوں میں لگا کر آٹا چینی گھی خریدنے کا عادی بھی بنایا اور آخر کار آزادی کے نام پر پھانسی چڑھ کر اپنے انجام کو پہنچا۔

ضیاء کا دور بھی عجیب تھا۔کلاشنکوف کلچر کوفروغ دیا ، ہیروین کو عام کر کے جدید جہاز متعارف کروائے۔فرقہ پرسستی اور قوم پرستی کی بنیاد رکھی، اسلام کے نام کو بیچ کر اپنے اقتدار کو طول دیا اور آخر کار جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کروا کر فیصل مسسجد کے اندر اپنا مزار بنوایا۔

بے نظیر کا دور بھی عجیب تھا۔اپنے باپ کے انتقام کی قسم کھانے والی، پاکستان کا سارا پیسہ کھا گئی ، بڑے بڑے محل بنائے ، پاکستان کے قانون کے ساتھ اپنے بچپن کے کھلونوں کی طرح کھیلی۔خود حاکم ہوتے ہوئے اپنے خاوند کو حاکم بنایا جس نے ہر چیز میں کمیشن کی بنیاد ڈالی اور خود مسٹر ٹین پرسنٹ کہلایا۔ اور آخر کار اپنے اسی خاوند کوجیل میں چھوڑ کر دور دیسوں میں جا بسی۔

نواز شریف کا دور بھی عجیب تھا۔بہت سے ڈکٹریٹروں کو مات دی ، عدلیہ کو ذلیل کیا ،جب جی چاہا بجٹ بنانے کی نئی روایت ڈالی۔بہت سے ایمانوں کو بیچا اور خریدا ، پولیس کو بے لگام کیا اور آخر کار ایک ڈکٹیٹر سے شہ مات کھا کر سعودیہ کی مقدس زمین پر جا بسیرا کیا۔

آج کا دور بھی عجیب تر ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں۔کسی چیز پر کوئی پابندی نہیں۔جس کے پاس مشرف کی لاٹھی ہے وہ جو جی چاہے کرے۔مولویوں کا گریبان پکڑے یا اسلام کو بیچے ، پولیس ہے تو وہ بے لگام ،جس کا جی چاہے گھر کھنگالے اور دہشت گردی میں اندر کرے ، کھانے پینے کی چیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں ، آج بھاؤ کچھ ہے تو کل کچھ ، یوٹیلٹی بل جب جی چاہے بڑھا دیں۔جس کے گھر کھانے کو نہیں اسے پانی پینا بھی منع ہے۔
عدلیہ بیچاری معذور ہے ، وزیراعلیٰ حکم کرے تو پابندی لگے اور پھر حکم کرے تو پابندی ہٹے ، کوئی سیاستدان بولے تو اندر جو نہ بولے وہ بندر ، عجیب انصاف کا بول بالا ہے۔اور عجیب بے ایمانی ہے کہ بے ایمانی میں بھی ایمانداری نہیں۔بولیں تو اندر ، نہ بولیں تو قبر کے اندر
میراتھن ہو تو شہر سیل گر نام اسلام کا ہو تو سب فیل ، اور یہی سب مست ہاتھی کہاں سے آئے ،کوئی پتہ نہیں ؟ عوام کی تصویریں تھانوں میں لگی ہیں گھروں میں اب تک چھاپے ہیں ، لوگوں کے اپنے سیاپے ہیں۔اور آخر کا یہی سیاپے عجیب تر کو بھی اپنے منتقی انجام تک پہنچائیں گے۔




9 تبصرے:

  1. thats some facts .... as a pakistani we have to do something to have a good system
    i really like ur blog templete

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ آپکا
    آپ کے پایہ کا تو نہیں ہوں مگر جس ٹوٹے پھوٹے پر آپ نے سراہا ہے اس سے دلی خوشی ہوئی ہے۔
    ایک دفعہ پھر شکریہ آپکا

    جواب دیںحذف کریں
  3. really very nice post.

    the common thing in all is that no one left the govt. happily ,isnt it?

    all were forced to leave, and so would be in the case of Musharaf

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب یہ تقابلی جائزہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو بھی حکمران اس بے چارے ملک پر مسلط ہوئے ہیں وہ اپنے عہدے کے کتنے اہل تھے
    ایک کہاوت سنی تھی یہاں اس کا ذکر مناسب رہے گا
    چیگیز خان کا جب آخری وقت آیا تو اس نے اپنے مصاحبوں کو بلایا سب بڑے شوق سے آئے کہ بدشا سلامت اپنی آخری وصیت سنا رہے ہیں۔ جب سب جمع ہوگئے تو چنگیز خان نے کہا قریب آؤ جب سب قریب آگئے تو اس نے کہا کہ گواہ رہو پھر کچھ توقف کیا لوگ اور زیادہ متوجہ ہوئے وہ پھر گویا ہوا کہ گواہ رہو کہ میں نے ظلم نہیں کیا لوگ حیران ہوئے کہ اس کا دماغ کام کرنا ثھوڑگیا اب یہ اول فول بک رہا ہے اس نے سائے ظلم کے اور کیا ہی کیا ہے وہ پھر گویا ہوا کہ گواہ رہو کہ میں نے ظلم نہیں کیا کہ میں نے کسی نااہل کو کسی اہل پر ترجیح نہیں دی
    آج پاکستان کے ساتھ یہ المیہ نیا نہیں ہے جب سے یہ قائم ہوا ہے اس پر نااہل لوگوں کا قبضہ ہے اور اس کا ایک نتیجہ آپ کے سامنے ہے

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...