ہفتہ، 4 مارچ، 2006

سوئی گیس کے بل

پرسوں رات کلفی کھانے کے شوق میں ہم جب بابا جی کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں بابا جی ہر ایک کو یہ بڑی بڑی گالیوں سے نواز رہے تھے۔ہم بڑے حیران ہوئے کہ بابا جی کی عمر اب اللہ اللہ کرنے کی ہے مگر بابا جی ہیں کہ ایسی ایسی گالیاں نکال رہے تھے کہ شائد ہماری پاکستانی پولیس کے علاوعہ کسی اور کو ایسی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔
بابا جی جب سانس لینے کے لئے رکے تو ہم نے پوچھا ، بابا جی ایسی کیا آفت آ گئی جو آج آپ کے منہہ سے پولیس کے پھول جھڑ رہے ہیں۔کہنے لگے ، کیا بتائیں صاحب جی اس بگٹی کو تو مار دینا چاہئیے ، اسی کی وجہ سے ساری آفت آئی ہے ۔ہم بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کیوں کیا ،کیا بگٹی نے آپ کے ساتھ۔ ارے اس کیا کرنا ہے ہمارا ، اسی کی وجہ سے تو ساری آفت آ رہی ہے ۔اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ صرف ایک چولہہ جلتا ہے ہمارے گھر کا اور بل تو دیکھو ذرا کیا آیا ہے ، ساڑھے نو سو روپے۔یہ تو ظلم ہے نا صاحب جی ، سراسر ناانصافی ہے غریبوں کے ساتھ ۔
مگر بابا جی اس دفعہ تو سب کا بل بہت زیادہ آیا ہے اور میرے خیال میں یہ بگٹی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ جو توڑ پھوڑ عوام نے احتجاج کے طور پر کی تھی یہ سب اسی کا ہرجانہ ہے۔اور یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ عوام کو اور پیس کر رکھو ، ابھی یہ اٹھنے کے قابل ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...