جمعرات، 13 جولائی، 2006

لو کر لو باتاں

ابھی ابھی مدھر تال کے ساتھ اتنی زور سے بارش برسی کہ مزا آ گیا سوچا آج سرکاری پانی کی بچت کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پانی سے نہا کر ہی انٹر نیٹ پر بیٹھا جائے تاکہ شائد مجھے کوئی عقل کی بات سوجھ جائے۔
کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے بدتمیز شہزادے نے سیارہ پر ایک اور گولہ داغ دیا ہے مگر اس گولے میں شہزادے نے ہتھ واقع میں ہولا رکھا ہے۔
اس گولے میں شہزادے نے ہمیں بھی رگڑا دے دیا ہے، غالباً شہزادے میاں نے ہماری تحریر پر غور ہی نہیں کیا، ہم نے تو صرف شہزادے میاں سے اپنی معلومات بڑھانے کی خاطر صرف سوال پر سوال کیے تھے کہ کیا واقع میں ، مرزا ٹٹی میں مرا تھا یا اس کے منہہ سے ٹٹی نکل رہی تھی؟
اور دوسرا واقع میں مرزا کانا تھا؟ کیونکہ ہم نے پڑھا یہ تھا کہ وہ افیون کھانے کی زیادتی کی وجہ سے بھینگا سا ہو گیا تھا۔
اپنا بدتمیز شہزادے میاں ہم نے آپ کی معلومات کو غلط نہیں کہا اور نہ ہی آپ پر کوئی الزام دھرا ، اصل میں شہزادے جی ہمارے سننے میں کوتاہی بھی ہو سکتی ہے۔ہم نے تو صرف تصدیق چاہی تھی کیونکہ دیر سے سنے یا پڑھے گئے الفاظ ذہن میں گڈ مڈ بھی تو ہو سکتے ہیں۔
ویسے ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے شہزادے جی وہ میں نے مرزائیوں کی کتابوں ہی سے پڑھی تھی کہ مرزا گالیاں ایسے نکالتا تھا کہ جیسے اس کے منہہ سے کنول کے پھول جھڑ رہے ہوں،
کیا یہ بات بھی سہی ہے شہزادے جی؟


اردو راکٹ



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...