اتوار، 16 جولائی، 2006

اک آواز جو زندگی تھی

مجھے فون نہ کیا کرو ، الجھن ہوتی ہے اور پھر میں شادی شدہ ہوں تمہاری مدھر آواز سن کر پریشان سا ہو جاتا ہوں۔
کہنے لگی تو کیا ہوا گر تم شادی شدہ ہو ، بس تم مجھے اچھے لگتے ہو ، تمہاری باتیں ، تمہارا لہجہ اور سب سے بڑھ کر تم مجھے اچھے لگتے ہو۔جب تک دن میں تمہاری آواز سن نہ لوں مجھے چین نہیں پڑتا۔
جانو یہ سب وقتی باتیں ہیں جب تم اپنے پیا کے گھر چلی گئی نا تو دیکھنا تم سب بھول جاؤ گی ، دن تو کیا تم سالوں بھی فون نہ کرو گی۔
کہنے لگی ایسا کبھی نہیں ہوگا گر تمہارے بنا میری شادی ہو بھی گئی نا تو تب بھی جب تک میں تمہاری آواز نہیں سنوں گی مجھے چین نہیں پڑے گا۔
آج سالوں بیت گئے میری جانو کی شادی کو مگر کہیں سے بھی اُس کی آواز نہیں آتی۔





3 تبصرے:

  1. مبني بر حقيقت افسانچہ ہے۔ اچھا لگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. سو سو جوڑ سنگت دے ڈٹهے

    تے اخير جداياں پئياں

    جناں سجناں توں نئيں سان وى وچهڑے

    او شكلاں ياد ناں رہئيں

    بابا فريد صاحب كى يه نظم تو اگے بھى چلتى ھے مگر يہاں اتنا ہى كافى ہے ـ
    يه جو ہمارے پرانے بابے گذرے ہيں ناں باتيں بڑى كہرى كہـ گئيے ہيں ـ

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپکا بہت شکریہ میرا پاکستان جی۔

    خاور جی واقع پرانے بابے جو کچھ کہہ گئے ہیں ان کا جواب نہیں ہے اور ان کی باتیں بھی حقیقت پر مبنی ہوتی تھی۔ویسے جب آپ بھی بابے ہو جاؤ گے نا تو لوگ آپ کی باتوں کی بھی مثالیں دیا کریں گے

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...