مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے
جہاں دیکھو میلاد ، جہاں دیکھو مجلس ، جہاں دیکھو کوئی نہ کوئی محفل ۔۔۔
اگر آپ کو اپنے مذہب سے اتنی ہی عقیدت ہے اور آپ اس کو مانتے بھی ہیں تو ایک جگہ مقرر کرلیں ۔ پھر جو جی چاہے کریں ۔۔لوگوں کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں اور نہ ہی کوئی ایسا سیکورٹی رسک پیدا کریں جس سے عام معصوم انسانوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو۔
کیا آپ لوگوں کے اس طرح سر عام اجتماعات کرنے سے لوگ آپ کے مذہب کی طرف راغب ہو جائیں گے ؟
میرے خیال میں اگر ہم لوگوں نے تفرقہ بازی ، ایک دوسرے سے نفرت ، شدت پسندی اور دہشت گردی جیسے عنفریت کا خاتمہ کرنا ہے تو جلد یا بدیر ہمیں ایسے اقدام کرنا ہوں گے کہ جس سے خصوصا پاکستان میں رہنے والے انسان سکھ اور آزادی کا سانس لے سکیں ۔
اہل تشیع ہوں ، بریلوی ہوں ، دیوبندی ہوں یا کہ اہلحدیث ۔۔سب کو اپنے مذہبی اجتماعات اپنی قائم کردہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہوں پر کرنے چاہئے۔سڑکوں ، گلیوں یا بازاروں میں ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی لگا دینی چاہئے ۔
ہم تمام لوگوں کو سر عام مذہبی اجتماعات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے تاکہ پاکستان کا عام مسلمان سکھ کا سانس لے سکے۔اگر پاکستان میں مذہبی اجتماعات مخصوص کردہ جگہوں پر ہونے لگے تو آپ دیکھئے گا کہ اور کچھ ہو نہ ہو پاکستان میں تفرقہ بازی ضرور ختم ہو جائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا یہ بھی کہنا ہے کہ گورنمنٹ کے اربوں روپے سالانہ ان اجتماعت کی سیکورٹی پر خرچ ہوتے ہیں،چلیں پیسوں کو ایک طرف رکھ کر آپ یہ بھی دیکھیں کہ عام آدمی جن کی تعداد پچانوے پرسنٹ ہے وہ ان اجتماعات سے کتنا پریشان ہوتا ہے۔
میرا یہ موقف نہیں ہے کہ مذہبی اجتماعات نہیں ہونے چاہئے یا ان پر پابندی لگا دینی چاہئے۔۔۔ ۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہر ایک کو آزادی ہونی چاہئے مگر ایک لمٹ میں رہ کر ۔۔۔
اب ایسا نہیں کہ کوئی اٹھ کر سڑکوں پر آ کر اپنی مذہبی عبادات کر کے عام لوگوں میں دخل اندازی کا سبب بنے۔۔۔ یا کہ پوری سڑکیں بند کر دی جائیں
پہلے حالات مختلف ہوا کرتے تھے،لوگوں میں برداشت کا مادہ ہوتا تھا۔ اب حالات کے ساتھ ساتھ ماحول میں ، برداشت میں بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔۔۔
ہمیں آج نہیں تو کل سوچنا ہوگا کہ چاہے کوئی بھی ہو،کسی بھی مذہب ،فرقے سے تعلق رکھتا ہو ۔۔۔ اس کو اپنی مذہبی عبادات، رسومات اپنی جگہ یا گورنمنٹ کی مخصوص کردہ جگہ پر کرنے چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی شمشاد صاحب کا اس کے جواب میں تبصرہ
اس طرح سیکورٹی رسک تو کم ہو جائے گا لیکن مذہبی جنونی جو ہیں ان کی روزی روٹی بند ہونے کا خطرہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی حسان خان صاحب کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ
بے شک۔ سنی اکثریتی ملک ترکی اور شیعہ اکثریتی ملک آذربائجان کی طرح یہاں بھی عوامی جگہوں پر ہر قسم کے مذہبی اجتماعات پر پابندی ہونی چاہیے۔ جس کو جو کرنا ہے وہ شوق سے اپنی عبادت گاہوں میں دل بھر کر کرے۔
لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پابندی کو بھی فرقہ واریت پر محمول کیا جائے گا، شیعہ اپنے جلوسوں پر پابندی قبول نہیں کریں گے اور اسے سنی اکثریت کی کی دھونس سمجھیں گے۔ بریلوی اپنے جلوسوں پر پابندی کا مطلب ذکرِ رسول پر پابندی سے لیں گے اور سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئیں گے۔ اسی طرح اہلِ حدیث یا دیوبندیوں کے جلسے جلوسوں پر بھی پابندی لگانا آسان نہیں۔ پابندی ضرور لگنی چاہیے، لیکن حکومت کے لیے پابندی لگانا بھی بہت مشکل کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک اور محترم ساتھی ساجد صاحب کا اس کے جواب میں کہنا تھا کہ
پردیسی بھائی ، اللہ آپ کا اور آپ کے دوست شیخو کا بھلا کرے جنہوں نے اتنی جرات رندانہ دکھائی۔ اب کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے کہ علماء کرام ہم سے زیادہ اس بات کا ادراک رکھنے کے باوجود ایسے کاموں کا جزو لاینفک ہیں۔
بات صرف مذہبی اجتماعات تک ہی موقوف نہیں رہنی چاہیے ، سیاسی جلسے ، شادی ، منگنی ، قل خوانی ، چہلم ، کاروباری کمپنیوں کے عوامی اجتماعات اور دیگر اقسام کے اجتماعات جو راستوں کو بند کر کے منعقد کئے جاتے ہیں عوام کے لئے شدید تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
مجھے ابھی تک وہ تکلیف دہ لمحات یاد آتے ہیں تو اذیت ہوتی ہے جب پچھلے سال ہماری پوری فیملی ڈینگی کا شکار ہو گئی تھی اور میرے بیٹے کا مرض شدت اختیار کر گیا ۔ جب اسے بلیڈنگ شروع ہو گئی تو ڈاکٹروں نے اسے کسی دوسرے ہسپتال کے لئے ریفر کیا۔ خدا کی پناہ کہ جب پورا لاہور ڈینگی کی آفت میں جکڑا ہوا تھا جنرل ہسپتال کو جانے والی سڑک پر میلاد کروایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے سڑک مکمل بند تھی اور ٹریفک کا بہاؤ الٹی طرف کر دینے کی وجہ سے آمنے سامنے کی گاڑیوں کی وجہ سے باقی راستہ بھی بند ہو گیا۔ اب بچے کے بہتے خون اور مرض کی خطرناکی کے عالم میں گاڑی کے ٹریفک میں پھنسے دوران ہی پنڈال سے مولوی صاحب کے انسانیت پر جاری بھاشن پر جتنی گالیاں میرے منہ سے اس میلاد کے منتظمین کے لئے نکلیں شاید ہی کبھی کسی کے لئے نکلی ہوں۔ اور اس ”نیکی کے کام“ کی ایک تشہیر اگلے دن یوں بھی ہوئی کہ اس محفل پر اصراف کی حد تک کی گئی لائٹنگ چوری کی بجلی سے کی گئی تھی جس پر واپڈا والوں نے دوران محفل ہی چھاپہ مار لیا تھا لیکن تقریب کے ختم ہونے تک کارروائی نہ کی۔
اللہ بچائے ہمیں ایسی منافقت سے جس میں دین کے نام پر ہی دین کی تعلیمات کے خلاف کام کئے جائیں۔
میرا ووٹ آپ کے ساتھ ہے کہ ہرقسم کے مذہبی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی اجتماعات اور جلوسوں کو سڑکوں پر منعقد کرنے کی ممانعت ہونی چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی ساجد صاحب کا اس کے جواب میں تبصرہ
دیکھیں جی کوئی کچھ بھی منانا چاہتا ہے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ۔ لیکن جب اس کے عمل سے پبلک ڈسٹرب ہو رہی تو اسے پابند کیا جائے کہ وہ اپنی celebrationکو چار دیواری تھ محدود رکھے۔
اسی طرح سے شور کا معاملہ ہے ۔ میوزک کی بلندآواز ہو یا مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر قرآن کی تلاوت ، نعت خوانی اور علماء کا بیان ، نہیں ہونا چاہئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی یوسف ثانی کا اس کے جواب میں تبصرہ
جزاک اللہ پردیسی برادر !ایک بہت اہم تحریرجو آج کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس بات کا کھلے عام مطالبہ (غالباََ) سب سے پہلے ایک معروف صحافی محمد صلاح الدین شہید نے آج سے کوئی دو ڈھائی عشرہ قبل اخبارات کے ذریعہ کیا تھا۔ انہوں نے کئی بار لکھا تھا کہ پاکستان میں ہرقسم کے سیاسی، سماجی اور مذہبی جلوسوں پر پابندی ہونی چاہئے۔ اور اس قسم کے اجتماعات صرف اور صرف مقررہ اور منظور شدہ ”چہار دیواری“ کے اندر منعقد کی جاسکتی ہیں۔
سنیوں نے اپنے ”مذہبی جلسے جلوس“ شیعہ برادری کے ”مقابلہ“ میں شروع کئے ہیں۔ جبکہ شیعہ اکثریتی ملک ایران میں آج بھی سڑکوں پر کوئی جلوس نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک ایرانی شیعہ آیت اللہ (نام اس وقت بھول رہا ہوں) نے تو محرم الحرام کے جلوسوں کے خلاف فتویٰ بھی دیا تھا۔ حال ہی میں پاکستان آئے ہوئے ایرانی صدر نے واضح طور پر کہا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ شیعہ تھے اور نہ ہی سنی۔ تو کیا ہم شیعہ سنی سے بالا تر ہوکر ”مسلمان“ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں؟ اگر ہم سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے مطابق ”مسلمان“ بننے کا فیصلہ کرلیں تو پھر ہمیں کسی بھی مسلک کے نام سے سڑکوں پر جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں ہوا کرے گی۔ کہ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام مین صرف اور صرف عیدین کے موقع پر نماز عید کے لئے بڑے اجتماع کی گنجائش ہے۔
آج ایک ایک شہر میں کروڑوں افراد رہتے ہیں۔ جہاں چند گھنٹوں کے ئے بھی راستہ کو بلاک کردینے سے لاکھوں لوگ متاثر ہوتے ہیں چہ جائیکہ تین تین دن کے لئے سڑکیں اور شاہراہیں مکمل طور پر بند کردی جائیں اور وہ بھی اُس دین کے ماننے والوں کی طرف سے، جو ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ راستوں کو صاف رکھو۔ راستے پر پڑے کانٹوں اور پتھروں کو دور کردیا کرو۔ اور راہ میں بیٹھ کر راستہ بند نہ کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی حسان خان کا اس کے جواب میں تبصرہ
ایران میں تو سڑکوں پر جلوس نکلتے ہیں، لیکن شیعہ اکثریتی ملک آذربائجان میں عوامی جگہوں پر ہر طرح کے مذہبی اجتماعات پر پابندی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی محمود احمد غزنوی کا اس کے جواب میں تبصرہ
سو فیصد متفق۔۔
کچھ اسی قسم کا واقعہ میرے ساتھ بھی 8 سال قبل پیش آیا۔ میں رات کے تقریباّ گیارہ بجے آفس سے واپس گھرموٹر بائیک پر جا رہا تھا جب اپنے علاقے میں داخل ہوا تو دور سے ہی لاؤڈسپیکرز کی بلند آہنگ آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ جوں جوں گھر نزدیک آرہا تھا آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھیں۔ مجھے انتہائی کوفت ہونا شروع ہوگئی کیونکہ میری والدہ سخت بیمار تھیں اور کسی قسم کا بھی شور انکے اعصاب کیلئے سخت نقصان دہ تھا۔ بہرحال جب گھر کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ ہماری گلی سے پچھلی گلی میں ایک شامیانہ نصب تھا اور قدِّ آدم چار عدد سپیکرز دور سے ہی نظر آرہے تھے۔ زمین پر کچھ دریاں بچھی ہوئی تھیں اور نوعمر لڑکے اور بچے جنکی تعداد کوئی 15 یا بمشکل 20 ہوگی ، فرش پر براجمان تھے۔ایک لڑکا مائیک پر مشقِ سخن کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ آواز کا ایکو یعنی گونج ایڈجسٹ کر کے بڑھائی جارہی تھی ۔آواز اس قدر بلند تھی کہ برداشت سے باہر۔ جب میں قریب پہنچا تو گلی میں ہی مجھے میرا چھوٹا بھائی مل گیا جو غصّے سے ٹہل رہا تھا۔میرے ساتھ ہی پولیس کی موبائل وین بھی گلی میں داخل ہوئی۔ پولیس والے نے مجھے قریب کھڑا دیکھ کر بریک لگائی اور ہمارے گھر کا نمبر بتا کر پوچھا کہ یہ گھر کس گلی میں ہے اور میرے چھوٹے بھائی کا نام بھی لیا کہ اس آدمی سے ملنا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ ہمیں ون فائیو پر کال آئی ہے کہ اس گلی میں کچھ لوگ لاؤڈسپیکر کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں اسی لئے ہمیں ون فائیو والوں نے بھیجا ہے۔ آپ پلیز اس بندے سے ملوا دیں۔ اتنی دیر میں میرا بھائی بھی قریب آگیا اور وہ شخص جس نے اس محفل کا انعقاد کیا تھا وہ بھی ہمارے پاس آگیا۔ جب پولیس والے نے یہ بات کی تو وہ شخص بھی سن رہا تھا۔ میں نے پولیس والے سے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے اسے آپ کو فون نہیں کرنا چاہئیے تھا لیکن اگر اس نے کر ہی دیا ہے تو سارا معاملہ آپکے سامنے چل رہا ہے دیکھ لیجئے کہ یہ سب نوعمر لڑکے ہیں اور انکا پروگرام سحری تک اس محفل کا ہے اور آواز کس قدر بلند ہے کہ ہمیں آپ سے بات کرتے ہوئے بھی دشواری محسوس ہورہی ہے۔۔۔ کم از کم آواز ہی کم کروادیجئے۔ پولیس والے نے میری بات سے اتفاق کیا۔ اسی دوران وہ شخص جس نے یہ محفل منعقد کروائی تھی کہنے لگا:
"تُسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"
میں نے تحمل سے اسکی بات سن کر یہ کہا کہ بھائی بچے سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ اس نے پولیس کو فون کردیا، لیکن آپ بھی تو سوچیں کہ کس قدر ناقابلَ برداشت حد تک اونچی آواز ہے، اس محلّے میں بیمار اور ضعیف لوگ بھی رہتے ہیں، چھوٹے چحوٹے بچّے بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو سارا دن کی محنت کے بعد کچھ دیر آرام سے سونا چاہتے ہیں، میری والدہ بھی شدید بیمار ہیں، کچھ ان باتوں کی طرف بھی دھیان دیجئے۔ ہم بھی سنّی ہیں، ہم بھی اولیاء کرام اور بزرگانِ دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ہم بھی میلاد وغیرہ کے منکر نہیں ہیں ۔۔لیکن ادھر سے یہی بات کہ "تسی تے مینوں کوئی کافر لگدے اوہ"۔
پولیس والا بھی معاملے کا یہ رنگ بنتا دیکھ کر اس معاملے سے جان چھڑانے کی تدبیریں سوچنے لگا ، میں نے پولیس والے کی لاتعلقی اور اس آدمی کی اس بات سے کسی قدر دکھی ہوکر اور چڑ کر اپنے بھائی کا بازو تھاما اور پولیس والے سے کہا:
"تسی جاؤ جناب، ایس بندے نوں جنّت وچ جان دیو، ایہدا رستہ نہ روکو۔"
اور اس آدمی سے کہا"
" جا آواز نوں ہور ُاچّی کر، رج کے نیکیاں کما "
چنانچہ یہ محفلِ ہا ؤ ھو رات کے تین بجے تک جاری رہی، او ر ناقابلِ بیان بے ہنگم انداز سے ایک صاحب نے مائیک پر آکر لگا تار اللہ ھُو کی ضربوں کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ کی چُولیں ہلا کر رکھ دیں، اور وہ ہنگامہ بپا کیا کہ خدا کی پناہ۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ موصوف غیظ و غضب کے انداز میں مائیک پر "اللہ ھُو" کی ضرب لگاتے ہوئے گویا بار بار مائیک سے پوچھ رہے ہوں کہ "الل ھُو۔۔دسّ اللہ کتھے ایہہ۔ آناں ایں کہ نئیں۔میری سُن۔۔۔ اللہ ھُو"
میں اپنی والدہ کی طرف دیکھتا تھا اور انکے چہرے پر تکلیف دہ تاثرات دیکھ کر یقین کیجئے کہ ان لوگوں کیلئے بددعا ہی نکلتی تھی۔ آخر خدا خدا کرکے رات کٹی اور صبح تقریباّ نو بجے محلے کی مسجد سے اعلان نشر ہونے لگا کہ "فلاں صاحب کی والدہ قضائے الٰہی سے انتقال کرگئیں۔ جنازہ فلاں وقت پر اٹھایا جائے گا"۔۔۔ اور وہ گھر جس میں یہ وفات کا واقعہ پیش آیا وہ وہی گھر تھا جسکے دروازے کے آگے یہ محفل چل رہی تھی۔ اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ محفل اسی گھر کے لوگوں نے منعقد کروائی تھی یا انکے پڑوسی نے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی بابا جی کا اس کے جواب میں تبصرہ
سو فیصد متفق آپکی بات سے نجیب بھائی
ایسے نیم حکیم خطرہ جاں قسم کے مذہبی لوگ
انسانیت سے میلوں دور ہوتے ہیں
نا ادب ناتمیز
یہ کیسا عشق ہے
جس میں ا حترام نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی عسکری ، پاکستانی کا اس کے جواب میں تبصرہ
اس سب کا حل تعلیم میں ہے جاھل ملاء جو نفرت اور مار کھا کھا کر گھر سے دور پلا بڑھا ہو مدرسے کی روٹیاں کھا کر اس سے نفاست کی توقع رکھنا یا کسی کا خیال رکھنے کی امید کرنا بے وقوفی ہے ۔ اسی طرح مذہبی جنونی چاہے وہ کسی فرقے سے ہوں ان کو کوئی کیسے کنٹرول کرے گا؟ اسلام نے خؤد ایک ایساجن بوتل سے نکال دیا ہے جو اب اسلام کے قابو سے باہر ہو چکا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی نایاب کا اس کے جواب میں تبصرہ
جب تک جڑ زمین سے نکال باہر نہ کی جائے ۔ لاکھ شجر کے پتے شاخیں حتی کہ تنے کو ہی کیوں نہ کاٹ دیا جائے ۔
شجر کسی نہ کسی صورت اپنی زندگی کو قائم رکھتا ہے ۔ اور مناسب موسم پاتے ہی دگنے پھیلاؤ سے سامنے آتا ہے ۔
سوچ اس بات کی ہونی چاہیئے کہ " برداشت " کیوں ختم ہوئی ۔ ؟
اردو محفل میں محترم نایاب کے جواب میں میرا تبصرہ
آپ کی بات بجا ہے '' برداشت '' کیوں اور کیسے ختم ہوئی ۔۔ اب اس پر کیا رونا ، اب جبکہ ختم ہو چکی اور اس برداشت کے ختم ہونے سے بہت سی خرابیاں سامنے آ چکیں تو اب ہم ان خرابیوں کو ٹھیک ہونے بارے سوچیں اور وقت لگائیں ، کجا برداشت کی لکیر کو ہی پکڑے رہیں۔
جب خرابیاں دور ہوں گی ، سکون آئے گا ، برداشت بھی آتی چلی جائے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو محفل کے ایک محترم ساتھی ساجد صاحب کا اس کے جواب میں تبصرہ
کمالیہ میں ہمارے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے ۔ چونکہ مسجد ایک بند گلی میں واقع ہے اس لئے بہت محدود تعداد میں گھروں کے لوگ اس میں نماز کے لئے آتے ہیں۔ اور مسجد کے صحن میں اگر کوئی عالم صاحب تقریر فرمائیں تو کسی قسم کے سپیکر کے بغیر بھی ارد گرد کے گھروں میں آواز پہنچتی ہے۔ لیکن رسمِ دنیا نبھانے کے لئے انہوں نے سپیکر بھی لگا رکھے ہیں ...... ایک نہیں پورے 6 عدد بڑے سائز کے لاؤڈ سپیکر۔
ہمارا گھر مسجد کے بالکل سامنے واقع ہے اور جب ان چھ سپیکروں پر آذان کی اواز گونجتی تو ان کی کم بلندی کی وجہ سے ہمارے گھر میں ایک ایسی صورت ھال پیدا ہو جاتی کہ کانوں سے دھوئیں نکل جاتے۔ اوپر سے ایک نا خواندہ بابا جی ان کا آذان کا تلفظ غلط اور آواز کافی زیادہ تلخ تھی وہ آذان دیتے تو صورت ھال مزید خراب ہو جاتی۔ ایک دن بابا جی سے عرض کیا کہ حضور آپ کی آواز آذان کے لئے بہتر نہیں اور لہجہ بھی غلط ہے اس پر مستزاد کہ آپ فُل والیوم میں چھ سپیکر کھول کر آذان دیتے ہو تو اس سے آس پاس کے گھروں میں جو کوئی بیمار ہوں وہ انتہائی مشکل کا شکار ہتے ہیں ، لہذا آپ ایک سپیکر استعمال کر لیا کریں اور اس کا والیوم بھی کم رکھا کریں کیونکہ یہ چھوٹے سی آبادی کے لئے کافی ہے۔ ان دنوں میری والدہ مرحومہ بھی مرض الموت کا شکار تھیں اور ڈاکٹر نے ہمیں بھی ان کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے ، حتی کہ برتن گرنے کے شور سے بھی انہیں بچانے کی ہدایت کی ہوئی تھی ۔ لیکن میرے بار بار منع کرنے کے باوجود وہ بابا جی اور مولوی صاحب باز نہ آئے۔ بلکہ ضدبازی میں پڑ گئے۔ تب میں نے اپنے ایک وکیل دوست کے ذریعے پولیس سے رابطہ کر کے پہلے سے موجود قانون کا سہارا لیا ۔ اور پولیس نے آ کر 5 سپیکر بند کروا دئے اور والیوم بھی کافی کم کروا دیا ۔
اب جناب دو دن بعد جمعہ کی تقریر میں بندہ ناچیز و پر تقصیر مولوی صاحب کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گیا ۔ اور جہنم کا حق دار گردانتے ہوئے حقہ پانی بند کر دینے کا سزاوار ٹھہرا دیا گیا۔ اگرچہ جمعہ کی نماز میں نے اسی مولوی کے پیچھے پڑھی لیکن باہر آ کر مسجد کے دروازے پر محترم مولوی صاحب کا انتظار کرتا رہا ۔ ان کے برآمد ہونے پر ہم نے ان کے شایان شان ان کی ”عزت افزائی“ کی اور اپنے بدستور مسلمان ہونے کا انہی کی زبان سے اقرار کروایا۔ مولوی صاحب کو اپنی بیٹھک میں بٹھا کر ان کے اساتذہ ، محلے کے عمائدین اور پولیس والوں کو بلا لیا ۔ سب کے سامنے یہ کیس رکھا اور مولوی ساحب کے تکفیری فتوے کے چشم دید اور سماع شنید گواہ پیش کر دئے۔ بالآخر مولوی صاحب کو اپنا فتوی واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا اور مسجد کے سپیکر پر آ کر اہل محلہ سے کہنا پڑا کہ یہ سب غلط فہمی کی بنا پر ہوا۔
میری والدہ مرحومہ اپنے ابدی گھر منتقل ہو گئیں اور میں لاہور منتقل ہو گیا۔ چند ماہ قبل کمالیہ گیا تو وہی کام پھر سے جاری و ساری تھا ۔ میرے دو دن قیام کے دوران سپیکوں کی آواز کم کی گئی بعد میں بھائی فون پر بتاتا رہتا ہے کہ پرنالہ پھر وہیں گر رہا ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
واقعی آپ کی تحریر تو جامع ہے۔ اگر ہماری نظر اس تحریر پر پڑ جاتی تو ہم بالکل اس پر نہ لکھتے۔ واقعی سچ ہے کہ ہم لوگ وہ کام کر رہے ہیں جو ہندو کرتے ہیں۔ یعنی وہ جس طرح دیوالی مناتے ہیں ہم شب برات مناتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے ویوتاوں کے جلوس نکالتے ہیں ہم عید میلادالنبی اور محرم کے جلوس نکالتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے تبصرے کا بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںمیں چاہتا ہوں آپ سب محترم اس پر کھل کر آواز اٹھائیں اور مجھے امید ہے آج اگر یہ میرا پاکستان کی آواز بنی تو کل انشااللہ پورے پاکستان کی آواز بھی بنے گی ۔محترم اٍضل برادر آپ اس سلسلے میں دوسروں کو بھی تحریک دیں ۔۔ تاکہ ہماری آنے والی نسلیں سکون سے اس ملک میں رہ سکیں
مذہبی سیاسی تمام قسم کے جلسے جلوسوں کو محدود کرنا چاہئے
جواب دیںحذف کریں