بدھ، 5 اپریل، 2006

صفِ نازک اور ڈکیتی

آج راہ چلتے ہوئے میری ملاقات اسلم خان سے ہوئی جو شالامار باغ کے ساتھ والی آبادی محمود بوٹی میں بند کے قریب رہتا ہے۔بڑا اداس تھا، اُداسی کی وجہ پوچھنے پر کہنے لگا کہ کل میں اپنے رکشہ
LOT - 7446
کو لئے رات نو بجے کے قریب سواری کے انتظار میں ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ ایک خوبصورت عورت اور مرد میرے پاس آئے اور کہنے لگے شاہدرہ ، امامیہ کالونی جانا ہے ۔جب میں انہیں ان کی منزل مقصود کے پاس لے آیا تو پوچھا کہ کس جگہ اترنا ہے تو انہوں نے ایک اندھیری گلی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بس وہاں اتار دو۔جونہی میں اس گلی میں پہنچا تو عورت نے فوراً ہی میری کنپٹی پر پستول رکھ دیا اور کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو ،اس کے ساتھ والے مرد نے بھی ایک چھری میری گردن پر رکھ دی اور کہنے لگا کہ اگر آواز نکالی تو ہم کسی اور کو تو کچھ نہیں کہیں گے مگر تمہیں ضرور جان سے مار دیں گے۔میں نے تھوڑی سی ہمت باندھی اور عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ بی بی ، میں غریب آدمی ہوں مجھے معاف کردو ، اتنا سنتے ہی اس عورت نے اتنی تیزی سے پستول کے چیمبر کو کھینچ کر آگے پیچھے کیا کہ اس وقت ایسے لگا کہ جیسے میری جان نکل گئی ہو ، کہنے لگی بکواس نہ کر اؤے پٹھان ، تیرا میں بھیجہ کھول دوں گی مگر فوراً ہی اس کے ساتھ والا آدمی کہنے لگا گولی نہ چلانا ، گولی نہ چلانا۔کہنے لگا اؤے خان جلدی تلاشی دو اور جو کچھ ہے باہر نکالو۔میں نے جلدی جلدی اپنا موبائل اور اس دن کی ساری کمائی جو تین سو روپے کے قریب تھی ان کے ہاتھ میں تھما دی۔وہ عورت اور مرد فوراً ہی گلی کے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اس کے بعد میں کچھ دیر تو اپنے حواس میں ہی نہیں رہا جب ذرا تھوڑی میری طبعیت سنبھلی تو میرے سے رکشہ سٹارٹ نہیں ہو رہا تھا۔آخر اللہ کا نام لے کر میں نے رکشہ سٹارت کیا اور مین روڈ پر چلا آیا۔باہر مین روڈ پر پولیس کا دونوں طرف ناکہ لگا ہوا تھا انہوں نے مجھے فوراً روک لیا اور کہنے لگے کہاں سے آرہے ہو۔میں نے انہیں اپنی پوری رواداد سنائی ، وہ سن کر کہنے لگے ، کون ہے ، کدھر ہے ، ابھی چلو ہمارے ساتھ۔میں نے کہا نہیں صاحب رہنے دو اب میں نے کہیں نہیں جانا، بس صرف مجھے اتنا بتا دیں کہ جب میں ادھر سے گذرا تھا تو تب بھی آپ لوگوں کا ناکہ لگا ہوا تھا مگر آپ نے مجھے نہیں روکا تھا۔ان میں سے ایک کہنے لگا ، چل اؤے خان ،جا اپنا کام کر۔

4 تبصرے:

  1. امجد شیروانی5 اپریل، 2006 کو 8:20 PM

    پاکستان میں ہر جگہ ہی ایسی صورتحال ہے۔ہمارے ہاں کراچی میں روزانہ پتہ نہیں کتنی وارداتیں ہوتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہر جگہ ہی برا حال ہے جی۔کہاں جائیں ۔پولیس کے پاس رپورٹ درج کروانے سے ڈر لگتا ہے۔کیونکہ پولیس خود ڈاکو ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہم باہر رہ کر یہ تو سنتے آئے ہیں کہ پاکستان میں ایسی وارداتیں بڑھ گئی ہیں مگر یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ اب پاکستان کی عورتیں بھی اتنی ترقی کر گئی ہیں۔
    چلو اچھی بات ہے کسی چیز میں تو ترقی کی

    جواب دیںحذف کریں
  4. assalam o alaykum w.w.!

    I feel sorry for the man ... after a long wait he'd have earned those 300 rs ... hich were stolen ... amazing why those ppl picked up a poor rickshaw wala for looting ... even the mobile would have been of not more than 6-7K. ... may allah have mercy on us ... our values are going down day by day.


    wassalam

    جواب دیںحذف کریں

Featured Post

جاوید اقبال ۔ 100 بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی

  جاوید اقبال:  100  بچوں کے قاتل ایک سفاک جنسی درندے کی کہانی لاہور، پاکستان کا ایک مصروف شہر، جہاں گلیوں میں بچوں کی آوازیں گونجتی تھیں ...